تحریر : میر افسر امان سیکولرسٹوں نے ایک مدت سے قائد محترم کی ١١ اگست ١٩٤٧ء کی تقریر کی من مانی تشریح کر کے قائدِ محترم کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں۔ لہذا ہم قائد ِ محترم کی تقریروں کی روشنی میں ان سیکولرسٹو کو ہوشیار باش کر رہیں کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لیں اور قائدِ پر بہتان تراشی بند کر دیں۔قائد اپنی تقریروں کی صورت میں تمھارے سامنے آ رہا ہے۔
قائد عہد جدید کی تاریخ کے عظیم شخص ہیں ۔قائد نے اپنی ٧٢ سالہ زندگی کے چوالیس سال برصغیر کے مسلمانوں کی ترقی، خوشحالی، سیاسی بالادستی، ثقافتی تحفظات اور حصول آزادی کے لیے جدو جہد کے حوالے سے بسر کیے۔ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے بیس کروڑ مسلمان اپنے قائد کے نظریات کے دفاع کے لیے موجود ہیں اور سیکولر سٹوں کی ایک نہیں چلنے دیں گے۔جس طرح پاکستان کے اسلامی آئین بنانے کے لیے اسلام کے شیدائیوں نے آئینیدستوری مہم چلا کر آپ جیسے حضرات کو پہلے بھی چاروں شانے چت کر چکے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اسلامی آئین بنایا تھا۔ سیکولرسٹوں کا ایک مخصوص مکتبہ فکر اگر ضد،ٹھگی اورمن مانی تاویلوں کو چھوڑ کر دلیل کی بات مانیں تو قائد محترم ایک تقریر جو انہوں نے ١٤ اگست١٩٤٧ء کو انتقال اقتدار کی تقریب میں، جب ہندوستان کے وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں پاکستان میں آباد اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے ، کہ مغل شہنشاہ، مغل اعظم نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حن سلوک کا جو مظاہرہ کیا تھا کی مثال دی تھی۔ توقائد محترم نے جواب میں فرمایا۔”ہمارے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں۔اس کی ابتدا تو آج سے تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم نے کر دی تھی۔
آپ ۖ نے زبان سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ اُن کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ اس کے بعدمسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے ان کی تاریخ انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اصولوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہم سب کو ان اصولوں کی تقلید کرنی چاہیے۔”قائد محترم کے اس وژن کو سامنے رکھ کر١ ١ اگست ١٩٤٧ء والی تقریر کی تشریح یہ ہے کہ پاکستان میں تھیوکریسی نہیں، بلکہ اسلام کی فلاحی ریاست کا قیام ہے۔ جس میں اقلیتوں سے ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جو ہمارے پیغمبر ۖ کی تعلیمات اور ہماری مسلمان حکمرانوں کا شیوا رہا ہے جس کو قائد محترم نے بیان کر دیا ہے۔ ویسے سیکولرسٹوں کے حافظے کو تازہ کرنے اور اسلامی جمہوریہ کو سیکولرسٹ کے بجائے اسلامی جمہوریہ پاکستان ماننے کے لیے قائد محترم کی کچھ تقریریں پیش خدمت ہیں تاکہ یہ لو گ اپنی غلط روش سے باز آ جائیں اور اسلامی جمہویہ پاکستان کے اسلام پسند شہری بن کر پاکستان میں رہیں۔
قائد نے ٢ مارچ ١٩٤١ء کو لاہور کے ایک اجتماع میں فرمایا”مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے” ا پنے تاریخی شعور اور ملی احساسِ وراثت کی دلیل تھا کہ قائد بار بار اعلان کیا کرتے تھے ۔شاید اسی لیے کالجوں کے اسلام پسند طلباء نے قائد کے اس فرمان کو اپنا سلوگن بنا لیا ہے کہ ہمیں ”اپنے مسلما ن ہونے پر فخر ہے”۔ ٣٠ ستمبر ١٩٤٣ء کو ایک پیغام میں قائد نے فرمایا”ہم ایک عظیم الشان تاریخ اور درخشان ماضی کے وارث ہیں۔ ہمیں خود کو اسلام کی حقیقی نشاة الثانیہ کے لیے وقف کر دیانا چاہیے”اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جب آپ سے یہ سوال کیا گیا کہ پاکستان کا آئین کس طرح کا ہو گا۔تو آپ نے جواب دیا” میں کون ہوتا ہوں آپ کو آئین دینے والا! ہمارا آئین آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے پیغمبرۖ نے دے دیا ہے۔ ہمیں تو صرف اُس آئین کی پیرو ی کرتے ہوئے اُسے نافذ کرنا ہے اور اِس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظامِ حکومت قائم کرنا ہے اور یہی پاکستان کا مقصد ہے”لاہور میں ٣٠ اکتوبر ١٩٤٧ء کو ایک تقریر میں فرمایا” اسلام کی تاریخ جواں مردی اور عزم و حوصلہ کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
Muhammad Ali Jinnah
ایک متحد قوم کو جس کے پاس ایک عظیم تہذیب و تاریخ ہے، کسی سے خوفزادہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے” ایک اور مرحلے پر قائد نے فرمایا” تم میں ایک اعلیٰ قوم کی نشانیاں موجود ہیں جو دنیا کی کسی قوم میں نہیں۔ بس اپنی تاریخ کے سائے میں سانس لیتے رہو اور عظمت کے ایک نئے دور کا آغاز کرو”قائد نے ان خدشات، کہ پاکستان ایک سیکولر یا تھیوکریٹک ریاست ہو گی ۔ قائد نے واضع طور پر تردید کرتے ہوئے کہا” میں ان لوگوں کی ذہنیت کو نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اصول آج بھی اسی طرح قابل نفاذ ہیں جس طرح آج سے تیرا سو سال پہلے تھے۔اسلام صرف رسوم وروایات کا مجموعہ یا روحانی ضابطہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے زندگی کا ایک ضابطہ بھی ہے، جو سیاست معیشت اور اسی طرح کے دوسرے معاملات میں اس کے رویے کو مضبوط کرتا ہے۔
میں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں، بلکہ غیر مسلموں کو بھی کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ کسی کو ایسی جمہوریت سے خطرہ کیوں لاحق ہو جو انصاف ، رواداری اور مساوی برتائو کے اصولوں پر قائم کی گئی ہو”” ان کو کہہ لینے دیجیے۔ ہم دستور پاکستان بنائیںگے اور دنیا کو دکھائیں گے یہ رہا ایک اعلیٰ آئینی نمونہ” فروری١٩٤٨ء میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری خطاب میں فرمایا” مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے آئین کی حتمی صورت کیا ہو گی۔ البتہ مجھے اتنا معلوم ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری طرز کا ہو گا اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے تمام ضروری اور بنیادی اصولوں پر مبنی ہو گا” ١٩ فروری ١٩٤٨ء کو آسٹریلیا کے عوام کو نشری خطاب میں فرمایا” پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول ۖللہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اُس اسلامی ملت اور برادری کے رکن ہیں جس میں حقوق ، وقار اور خود داری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔
ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اورگہراشعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیے، پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہو گا۔ اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دیگر عقائد کو گوارا کریں”اسلامیہ کالج پشاور میں١٣جنوری ١٩٤٨ء کو تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ” ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو اپنائیں” قائد نے ٨ مارچ ١٩٤٤ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں طالب علموں کو باور کرایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ جہاں دیگر مذہبی اور ثقافتی وجوہات رہی ہیں وہاں اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ مطالبہ جداگانہ قومیت کی بنیاد پر اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے” ہمارے سیکولرسٹوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قائد کی ہر تقریر میں صرف اسلام کا ہی نام ہے سیکولرزم کا نہیں۔ قائد نے قیام پاکستان یا جدو جہد پاکستان کے دوران کبھی اپنی تقریروں میں نظریاتی حوالے سے سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ تو پھر برادرم! آپ یہ سیکولر والے رٹ کہاں سے ڈھونڈ لائے ہیں؟ایک مخصوص مکتبہ فکر قائد کے خیالات کو اپنے نظریات کے آئینے میں پیش کرتا ہے۔ جو یقیناً بابائے قوم قائد کیساتھ ظلم کے متردف ہے۔ صاحبو! شاید اسی لیے یہ مخصوص طبقہ قرارداد مقاصد کو بھی ملعون کرتارہتا ہے اورا س کی ضرورت و اہمیت سے انکاری ہے۔ جبکہ قرارداد مقاصد اپنے متن میں قائد کی حقیقی فکر کی ترجمان ہے۔
قرارداد مقاصد قائد کے انتقال کے تقریباًً چھ ماہ بعد ١٢ مارچ ١٩٤٩ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں قراردادمقاصد ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس قرارداد میں نہ صرف قوم کی مخصوص تاریخی بنیادی تاریخی ورثے کی عکاسی کی گئی ہے بلکہ اس میں قائد کے افکار و خیالات کی روشنی میں قومی نصب العین کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ قراردادِ مقاصد میں اُن اصولوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کی بنیادوں پر مستقبل میں پاکستان کا آئین مرتب کیا جانا تھا۔اس لیے قرارداد مقاصد کو آئین کے دیباچے کی حیثیت دے دی۔ پاکستان کے تمام آئین بمشول ١٩٧٣ء کا آئین اسی قرارداد کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔ قرارداد کو منظور نہ کیا جاتا تو تو پاکستان کے آئین کو قرآن و سنت اور قائد کے افکار کے مطابق خطوط مسیر نہ آتے۔ اور وہ طبقہ جو انگریز اور ہندوئوں کے زیر اثر پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں تھا یا اب بھی ہے، اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتا اور ہم تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان کے حقیقی مقاصد سے روگردانی کے مرتکب ہو جاتے۔ اس قرارداد نے پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعین کیا اور ہم کو اپنی نومولود ریاست کو ”مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان” کہنے کا اعزاز بخشا۔ یہ سب قائد کی دوراندیشی کے نتیجے میں ہوا۔ ہمیںا س پر فخر ہے۔ اس لیے سب کہو سیکولر نہیں،مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد۔ اللہ ہمارے پاکستان کو محفوظ رکھے آمین۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان