قیام پاکستان کا مقصد دو قومی نظریئے کے تحت اسلامی و فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ مسلمانانِ ہند نے اسی اسیاسی اصول کے تحت ایک علیحدہ وطن کا خواب پورا کیا۔ مسلمانانِ پاکستان کی مذہب و دین اسلام سے والہانہ وابستگی کا اندازہ لگانے کے لئے کسی خاص گنجلگ اعداد و شمار کی ضرورت نہیں، بلکہ قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد ہی یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ سرزمین حجاز کے ساتھ اہل وطن کا دینی رشتہ اصولی و تاریخی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب و پاکستان کے درمیان اسلامی بھائی چارے کا رشتہ ایسے کئی عناصر کی آنکھوں میں کھٹکتا ضرور ہے جو فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلم اُمہ کو تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے سیاست دان ہوں یا عسکری قیادتوں نے ہمیشہ سرزمین حجاز کے تقدس و حفاطت کے لئے سب سے پہلے قدم بڑھانے سے گریز نہیں کیا۔ خطے میں تذویراتی تبدیلیوں کی وجہ سے فرقہ ورانہ جنگوں کو ہوا دی جا رہی ہے اور ایک ایسا بلاک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے مسلم اکثریتی ممالک مزید تقسیم در تقسیم ہوجائیں۔ پاکستان ایسی کوششوں کو ہمیشہ رد کرتا چلا آیا ہے اور اتحاد بین المسلمین کے لئے اپنے مثبت کردار ادا کرنے کی یقین دہانی و عملی اقدامات سے امت کو فرقہ وارنہ بنیادوں پر تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ پاکستان کی ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ حالیہ دہائی میں سعودی عرب حوثی باغیوں کی وجہ سے حالت جنگ میں آیا اور یمن خانہ جنگی کی وجہ سے سرزمین حجاز کو نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع ہوئیں، چونکہ حوثی باغیوں کو کئی ایسی طاقتیں استعمال کررہی ہیں جن کا مقصد خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرکے خود کو ملت اسلامیہ کا سرخیل بنانا ہے اس لئے جابجا کئی مسلم ممالک میں فرقہ وارنہ بنیادوں پر ایک ایسی خانہ جنگیاں شروع ہوئیں جس نے صرف مسلم امہ کو ہی نقصان دیا۔ پاکستان نے کوشش کی غیر جانبدار ہو کر ثالثی کا کردار ادا کیا جائے، لیکن بعض سیاست دانوں کے ذاتی مفادات و وعدہ شکنی کی وجہ سے سعودی حکومت کے ساتھ پاکستانی ریاست کے تعلقات میں سرد و گرم کا ماحول بننے لگا۔ تاہم ریاست کی جانب سے سعودی حکمرانوں کو ہمیشہ اس اَمر کا یقین دلایا جاتا رہا کہ سرزمین حجاز مقدس کی حفاظت کے لئے پاکستانی عوام و مسلح افواج سب سے پہلے آگے آئیں گے اور اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کریں گے۔پاکستان نے کئی مواقع پر ثابت کیا کہ ریاست سرزمین حجاز کی حفاظت کے لئے کسی بھی قسم کا ایسا سمجھوتہ نہیں کرے گی جس سے امت مسلمہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔
سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکا اور سعودی عرب سمیت کئی اہم ممالک نے مجاہدین کی مدد کی اور کمیونزم کے سیلا ب کو روکنے کے لئے ہر ممکن تعاون کیا۔ سوویت یونین مجاہدین کے ہاتھوں بدترین شکست کا اس طرح شکار ہوا کہ دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا اور عالمی طاقتوں میں صرف امریکا واحد سپر پاور بن کر ابھر ا۔ روس اور سوویت یونین سے آزاد ہونے والی ریاستیں، مالی اعتبار سے کمزور تھی اس لئے امریکا نے اپنے مفادات کو دنیا بھر میں تیزی سے پھیلانے کی منصوبہ بندی پر عمل شروع کردیا۔ امریکا میں نائن الیون کے مبینہ واقعے کے بعد مسلم اکثریتی ممالک غیض و غضب کا نشانہ بنے۔عراق، افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج نے اپنے ایجنڈے کو کامیاب بنانے کے لئے ایسی کاروائیاں کیں جس نے پوری دنیا میں طاقت کے بے جا استعمال کے باعث عرب ممالک کو اپنے تحفظ کے لئے روس، امریکا، جرمنی فرانس سمیت کئی ممالک سے مدد لینی پڑی ، سعودی حکومت نے اسلامی فوج بنانے کا اعلان بھی کیا لیکن ایران کے ساتھ خمینی انقلاب کے بعد خراب ہونے والے بدترین حالات نے تمام معاملات کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ سعودی عرب کا جھکاؤ اُن ممالک کی جانب زیادہ ہونے لگا جنہوں نے دفاعی اعتبار سے سعودی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے عملی کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست دانوں نے اپنے تئیں ایسے وعدے وعید زمینی حقائق کے برخلاف کرلئے جس سے پڑوسی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہونے لگی۔ چونکہ پاکستانی ریاست کو اپنی سرزمین کو بھی پہلے محفوظ بنانا ضروری تھا اس لئے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کے لئے ایسے اقدامات اختیار کئے جس سے سعودی حکومت و پاکستانی حکمرانوں کے درمیان غلط فہمیوں نے جنم لیا، تاہم ان غلط فہمی و سرد تعلقات کو ختم کرنے کے لئے موجودہ حکومت نے کوشش کی لیکن سیاسی نابلوغت کی وجہ سے ایسے بیانات جاری ہوئے جسے سفارتی لب و لہجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مبینہ طور پر ایران کی جانب سے امریکا تنازعات نے سعودی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کیں اور آرمکو کی آئل تنصیبات پر حملے میں ایران کو مورد الزام ٹھہرا یا گیا، ایران کے ساتھ ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناطے ریاست نے غیر جانبدارنہ پالیسی اختیار کی تو سعودی حکومت نے اپنے وژن کے مطابق خارجہ تعلقات میں بھارت کے ساتھ چند ایسے معاہدے کئے جس کے بعد مسئلہ کشمیر پر سعودی توجہ کم ہونے کا تاثر سامنے آیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس و وزرائے خارجہ کا اجلاس نہ بلانے پر پاکستانی وزیر خارجہ کا غیر سفارتی بیان نے پاک، سعودی مخالفین کو منفی پروپیگنڈے کا موقع فراہم کیا، تاہم ریاستی اداروں نے ایسی تما م سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی جن کی روزاوّل سے خواہش رہی ہے کہ پاک، سعودی تعلقات خراب ہوں۔
پاکستان کی آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کا دورہ سعودیہ پہلے سے طے شدہ تھا اور فوجی معاملات پر باہمی تعلقات کو مزید وسعت دینے پر مبنی تھا۔ ویسے بھی پاکستانی تاریخ میں فوجی سربراہوں کا سعودی حکمرانوں سے ملنا غیر معمولی عمل نہیں ہے۔ سعودی عرب اور پاکستانی ریاستی اداروں کے ساتھ باہمی تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں، اس لئے دورہ سعودیہ میں ان معاملات میں پیدا شدہ غلط فہمیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کی جو امن دشمن عناصر کی جانب سے پیدا کرنا چاہتے تھے۔تمام حالات سے قطع نظر پاک سعودی تعلقات میں اتار چڑھاؤ ایک سفارتی عمل ہے، ہر مملکت اپنے مفاد کے خاطر اپنی پالیسیاں ترتیب دیتی اور عمل کرتی ہیں، پاکستان ماضی میں پرائی جنگوں میں کود کر خود کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکا ہے، پاکستان کا یہ رویہ اس کی کمزور معیشت و مجبوریوں کی بنا پر ہوتا ہے، سعودی حکومت مضبوط معاژی اسٹرکچر اور عالمی بنیادوں پر ایسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو جذبات کے بجائے زمینی حقائق کے طے دیکھتی ہے جس میں ان کے مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔
مسئلہ کشمیر و فلسطین امت مسلمہ کا مسئلہ ہے، مسلم اکثریتی ممالک کا فورم یقینی طور پر غیر فعال ہے، اس لئے جب تک مسلم اکثریتی ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل نہیں کرلیتے، اُس وقت تک فروعی اختلافات سے مسلم دشمن ممالک کے منصوبوں کو کامیا ب بنانے سے گریز کرتے ہوئے وطن عزیز کی ایسی پالیسی اپنانے چاہیے، جس سے خارجہ تعلقات مستقبل میں ملکی مفاد کے تناظر میں بنائے جاسکیں۔ جب عالمی برداری کے ساتھ اکھٹے ہوکر چلنا ہے تو ایسے اقدامات پر غیر جانبدار بھی ہونا ہوگا جو محتاط عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔مسئلہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، مقبوضہ کشمیر کی عوام اپنے حق خود اردادیت کے لئے 73برسوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔ آزادی کے لئے انہیں کسی بیرونی عناصر کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا جذبہ آزادی ہی کافی ہے۔ یقیناََ ایک دن کشمیر و فلسطین کو استعماری قوتوں سے آزادی ملے گی۔