تحریر : سید توقیر زیدی قوم نے 13 ستمبر کو بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کا 68واں یوم وفات قومی اور ملی اتحاد و یگانگت کے جذبے کے ساتھ عقیدت و احترام سے منا یا ہے ۔ اس موقع پر سرکاری اور نجی سطح پر مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے یوم وفات قائداعظم کے حوالے سے خصوصی ایڈیشنوں اور پروگرامز کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی جانب سے بھی آج یوم قائداعظم کی خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اسکی صدارت سالہا سال سے جناب مجید نظامی کیا کرتے تھے’ ان کے انتقال کے بعد اب ان کے جانشین اور سابق صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ قائداعظم کی برسی کی تقریب کی صدارت کرتے ہیں۔ قائداعظم کی روح کو ایصال ثواب کیلئے آج تعلیمی اداروں’ مدارس’ مساجد اور دیگر مقامات پر خصوصی تقریبات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اس موقع پر ملک کی بقاء و سلامتی اور ترقی و خوشحالی کی بھی دعائیں مانگی جائیں گی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ قائداعظم 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے تو قمری مہینے ذوالحج کی 8 تاریخ تھی۔
آج بھی ذوالحج کی 8 تاریخ ہے جو قمری مہینے کے لحاظ سے ان کا یوم ولادت بھی قرار پاتا ہے۔ قیام پاکستان کے صرف ایک سال ایک ماہ بعد بانی¿ پاکستان کی وفات حسرت آیات ایک ایسا قومی المیہ ہے’ جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا رہے ہیں’ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قوم کو درپیش سنگین مسائل کے حل اور اندرونی و بیرونی سازشوں سے نمٹنے کیلئے قائداعظم کی رہنمائی کی اشد ضرورت تھی اور مہاجرین کے سیلاب’ بھارت کی اثاثوں کی تقسیم میں ریشہ دوانیوں’ با?نڈری کمیشن کی غیرمنصفانہ کارروائیوںجن کے نتیجے میں کشمیر کے تنازعہ نے جنم لیا اور دیگر ناگزیر حالات کی وجہ سے ملکی آئین کی تدوین اور ملک کی مختلف اکائیوں کے مابین بنیادی معاملات پر اتفاق رائے کے حصول میں جو تاخیر ہوئی’ وہ قائد کی وفات کی وجہ سے مزید الجھ گئے’ قائداعظم کی زندگی میں نہ تو سول اور خاکی بیوروکریسی کو جمہوری اداروں اور سیاسی نظام میں دخل اندازی کا موقع ملتا اور نہ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور جغرافیائی اکائیوں میں اختلاف کی خلیج گہری ہوتی’ کیونکہ قوم کے بھرپور اعتماد’ احترام اور عقیدت کے علاہ خداداد بصیرت کی وجہ سے قائدا نہ صرف اتحاد و یکجہتی کی علامت تھے۔
بلکہ لاینحل مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال تھے اور یہ صلاحیتیں قوم کی کشتی کو مسائل کے طوفان سے نکالنے میں صرف ہوئیں۔ صرف ایک سال کے مختصر عرصہ میں قائداعظم? چل بسے اور ساڑھے تین چار سال بعد انکے جانشین لیاقت علی خان بھی شہید ہو گئے۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ بھی ملک کی بانی جماعت کے طور پر اپنا مضبوط اور موثر کردار ادا کرنے کے بجائے حصوں بخروں میں بٹتی چلی گئی اور اس کا فائدہ ان سیاسی ومذہبی قوتوں نے اٹھایا جن میں سے بعض یا تو قیام پاکستان کی مخالف تھیں یا پاکستان کے نظریہ یعنی دو قومی نظریئے سے اتفاق نہیں کرتی تھیں۔ مسلم لیگ کی تقسیم’ قائداعظم کے ساتھیوں کی باہمی سرپھٹول’ آئین کی تدوین میں بے جا تاخیر اور ملک کے مختلف حصوں میں جنم لینے والے نسلی’ لسانی’ علاقائی اور فرقہ ورانہ اختلافات کی وجہ سے جمہوری نظام کمزور ہوا اور سول و خاکی بیوروکریسی نے پرپرزے نکالنے شروع کئے۔ قائداعظم نے انگریز اور ہندو سے لڑ کر ذات برادری اور فرقے کی بنیاد پر منقسم مسلمانوں کے انبوہ کثیر کو ایک قوم بنایا تھا اور اپنی پرامن’ سیاسی جدوجہد’ مثالی بصیرت’ امانت و دیانت اور مسلم عوام کے تعاون سے ایک ایسی آزاد ریاست کا قیام ممکن بنایا جسے انگریز اور ہندو پریس دیوانے کی بڑ قرار دیتا تھا مگر انکی وفات کے بعد یہ قوم پھر ایک بار بھیڑ میں تبدیل ہو گئی اور اس بھیڑ پر سول و خاکی بیوروکریسی کے بھیڑیوں نے چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔
Quaid e Azam
قائداعظم نے مسلم قوم کو متحد کیا اسے ایک نصب العین دیا اور الگ وطن کے قیام کیلئے پرامن جمہوری جدوجہد کی راہ دکھائی’ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے آئین کی تشکیل کا معاملہ عوام کے منتخب نمائندوں پر چھوڑا اور خود کو بطور گورنر جنرل سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی صدارت سے الگ کرکے پارلیمانی جمہوریت کی جانب پیش رفت کی جس میں پارلیمنٹ خودمختار اور عوام کے منتخب نمائندے ہی قومی معاملات اور حکومتی امور چلانے کے حق دار ہوں لیکن بدقسمتی سے قائداعظم? کی وفات اور انکے جاںنشینوں کی کمزوریوں کی وجہ سے سول و خاکی بیوروکریسی نے 1958ء میں پہلی فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرکے ملک کو جمہوریت کی پٹڑی سے اتار دیا اور پھر 1958ء سے لے کر 2007ء تک چار مارشل لاوں نے ملک کی عمر عزیز کے 33 سال غارت کر دیئے۔ مشرف کے 2008ء میں ختم ہونیوالے نیم جمہوری دور کے بعد آج جمہوریت بتدریج مضبوط ہو رہی ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی پر قوم نے اعتماد کیا’ وہ توقعات پر پورا نہ اتر سکی تو 2013ئ میں عوام نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ہاتھ میں زمام اقتدار تھما دی مگر بدقسمتی سے پاکستان آج شدید بحرانوں اور مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
حکمران اقبال و قائد کے وارث ہونے کے دعویدار ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش مشکلات سے نجات دلانے کی وہ کمٹمنٹ نظر نہیں آرہی جس کے حالات متقاضی ہیں۔ قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری’ فلاحی اور جدید ریاست بنانا چاہتے تھے جس سے قوم آج بھی کوسوں دور نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آج بھارت کی مودی سرکار کے ہاتھوں پاکستان کی سالمیت کو پہلے سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں اور جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم اپنی پارٹی بی جے پی کے پاکستان دشمنی پر مبنی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے پر تلے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری پر تسلسل کے ساتھ جاری بھارتی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے پاکستان کی سالمیت تاراج کرنے کی مودی سرکار کی گھناونی منصوبہ بندی کا واضح عندیہ بھی مل رہا ہے۔
مودی نے کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر وزیراعظم حسینہ واجد کی موجودگی میں پاکستان توڑنے میں اپنے کردار کا دعویٰ کیا۔ حالیہ دنوں بلوچستان’ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنے پروردہ ایجنٹوں کو اکسایا’ انکی طرف سے شکریے کے فون موصول ہوئے تو میڈیا میں اس کو فخریہ بیان کیا۔ مودی پاکستان کو پوری دنیا میں تنہاء کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ بیجنگ میں ہونیوالے Gـ20 کے اجلاس اور لایس میں آسیان کانفرنس کے دوران پاکستان کیخلاف زہر اگلتے رہے۔ دونوں اجلاسوں میں شریک سربراہان مملکت کو باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے اس پر پابندیاں لگائی جائیں اور اسے تنہا کر دیا جائے۔ پاکستان کو دوست مسلم ممالک سے بھی دور کرنے کیلئے مودی سرگرداں ہیں۔ سی پیک کی مودی اور انکی انتظامیہ کی طرف سے شدید مخالفت ہورہی ہے۔ بھارت چین پر سی پیک منصوبے کے خاتمے کیلئے ممکنہ حد تک دباو ڈال رہا ہے۔
Kashmir Violence
مقبوضہ کشمیر میں اسکے مظالم اور بربریت کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ اب اس نے مقبوضہ کشمیر میں مزید 20 پلٹین تعینات کر دی ہیں۔ بھارت پہلے کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیتا تھا۔ کچھ عرصہ سے اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا اور اب مودی نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانا شروع کر دیا۔ پاکستان کا مشرقی بارڈر ہمیشہ بھارت کی جارحیت کے نشانے پر رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد افغان بارڈر بھی غیرمحفوظ ہو گیا۔ بھارت سے قربت کے بعد سے پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔ پاک فوج جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک دہشت گردوں کیخلاف برسرپیکار ہے۔ ایسے حالات میں قوم کے اتحاد کی اشد ضرورت ہے مگر سیاسی ماحول کشیدہ سے کشیدہ تر ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دوسرے پر گرج اور برس رہی ہیں۔ دھرنے جاری ہیں’ مظاہرے ہو رہے ہیں’ حکومت اپوزیشن کو مطمئن کرنے کے بجائے جوابی الزام تراشی پر زور لگا رہی ہے۔
معروضی حالات میں طرفین کو برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ہمیں آج دفاع وطن کیلئے مکمل قومی یکجہتی کی ضروت ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو آج ملک کے تحفظ و دفاع کے تقاضوں کے تحت اپنے سیاسی مفادات کی قربانی دے کر دشمن کو قومی اتحاد و یکجہتی کا ٹھوس پیغام دینا چاہئے۔
ہم قائد کے پاکستان کے دفاع کو یقینی بنا کر ہی قائد کی روح کو تسکین پہنچا سکتے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں دہشت گردی اور کرپشن سے پاک پاکستان کی بھی ضمانت فراہم کرنا ہو گی جبکہ روٹی روزگار کے آزار میں پھنسے عوام کو خوشحال بنانے کیلئے وطن عزیز کو اقتصادی طور پر مستحکم کر کے ہی ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو شرمندہ¿ تعبیر کر سکتے ہیں۔ آج کی حکمران مسلم لیگ ن کی قیادت کو تو اس معاملہ میں اپنی قومی ذمہ داریوں کا زیادہ ادراک ہونا چاہئے جو قائداعظم کی جانشین جماعت ہونے کی دعویدار بھی ہے۔