جو روش آج ہمارا معاشرہ اپنا چکا ہے اُسے ختم کئے بغیر ترقی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ہم اپنی بے ایمانی کو چھوٹا اور تھوڑا کہہ یا سمجھ کر دوسروں پر اس انداز میں تنقید کرتے ہیں جیسے ہمارا گریبان صاف ہو۔ قارائین محترم مجھے نہیں لگتا کہ چھوٹی بے ایمانی کے رہتے ہوئے بڑے بے ایمانوں کا احتساب کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جمہوری حکومت چاہے وہ کسی پارٹی کی ہو 90 فیصد عوام کے خلاف آپریشن نہیں کر سکتی، آخر اُن کو بھی پانچ سال بعد عوام سے ووٹ لینا ہوتا ہے۔
ایک طرح سے حکمرانوں کا یہی لالچ معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ ہم اپنی صفائی میں بڑی آسانی سے دوسروں پر الزام عائد کر دیتے ہیں، اگر ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو کچھ اس طرح کے حقائق کا سامنا کرنا پڑیگا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ گاڑی میری، گاڑی میں سفر میں اور میرے گھر والے کرتے ہیں، اُس میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو اپنی نگرانی میں ٹھیک کرواتا ہوں، لیکن کسی حادثے کی صورت میں ذمہ دار حکومت ہے، گھر صاف لیکن گلی میں کیچڑ رہتا ہے۔
میرے گھر سے خارج ہونے والا سیوریج کا پانی کسی گٹر یانالی میں گرنے کی بجائے برہ اراست گلی میں گرتا ہے اور گھر کی صفائی کرنے پر جو کچرا اکٹھا ہوتا ہے وہ گلی میں کھڑے پانی میں یہ سوچ کر پھینک دیتا ہوں کہ کچرا ڈالنے سے گلی کی سطح اُونچی ہو جائے گی تو پانی میرے دروازے کے سامنے کھڑا ہونے کی بجائے ہمسایوں کے دروازوں کے سامنے کھڑا ہوا کرے گا۔ پھر آہستہ آہستہ پوری گلی جوہڑ کا منظر پیش کرنے لگتی ہے تومجھے یاد آتا ہے کہ یہ ذمہ داری تو حکومت کی ہے کہ گلی کی صفائی کرے یا دوبارہ تعمیر کرے۔ جرم کرنے پر اگر پولیس گرفتار کرنا چاہے۔
تو سفارش اور رشوت کے ذریعے فوری طور پر بچنے کی کوشش کرتا ہوں، میں تو رشوت اس لیے دیتا ہوں کہ مجھے میرے جرم کی سزا نہ دی جائے لیکن پولیس کے پاس رشوت لینے کا کیا جواز ہے؟پولیس نے تو میرے جرم کی راہ ہموار نہیں کی تھی پھر بھی مجھے پولیس کو رشوت دینا پڑتی ہے، یہ کیساقانون ہے جو شہریوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتا ؟مجھے جرم کرنے کی کھلی چھٹی ہونی چاہئے اورملک میں کرپشن، رشوت ،سفارش ،اقرباپروری ،بدامنی اور بے روزگاری سمیت تمام جرائم کا خاتمہ بھی ہونا چاہئے۔
میں ٹریفک سگنل پر نہیں رکوں گا لیکن شہر میں ٹریفک کا نظام درست کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،ٹریفک پولیس کو چاہئے کہ میری گاڑی کے سواہر گاڑی کو چیک کرئے، قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے چالان کرے اُن کی گاڑیاں بند کرے، کچھ بھی کرئے لیکن جب میں گھر سے نکلوں تو سڑک پر ٹریفک بغیر کسی رکاوٹ کے رواں دواں ہونی چاہئے۔ سرکارنے میرے لئے ٹریفک قوانین بنا کر عمل درآمد کے لئے اہلکار تعینات کر رکھے ہیں۔
Traffic Police
لیکن میں اتنا بااصول ہوں کہ کسی ایک قانون کی پاسداری نہیں کرتا، یار یہ کیسی اندھیر نگری ہے کہ میری جیب میں وفاقی، صوبائی وزیریا پھر کسی ایم این اے، ایم پی اے کا کارڈ ہو پھر بھی میں ڈرایئونگ لائسنس بنوائوں یا ٹریفک رولز کی پابندی کروں؟ میرے پاس پریس کا کارڈ بھی ہے اور گاڑی پر لگی نمبر پلیٹ پر بھی پریس لکھا ہوا ہے پھر بھی مجھے ٹریفک پولیس کے اہلکار روک کر سوال وجواب کریں؟اندھیر ہے اندھیر بھائی ملک میں قانون یا حکومت نام کی کوئی چیز ہی نظر نہیں آتی ارے بھائی ٹریفک سگنل ہی تو توڑا ہے کیا ہو گیا حادثہ پیش آنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ میں یا کوئی دوسرا معذور یا مر ہی جاتا۔
اتنی سی بات پر مجھے سڑک پر روک کر ٹریفک پولیس میرا ٹائم برباد کرتی ہے، بجلی چوری کرتا ہوں تو کیا ہوا ؟سب کرتے ہیں میں کوئی اکیلا کرتا ہوں اور پھر میں تو بہت کم بجلی چوری کرتا ہوں 8 پنکھے ، 3 ایئرکنڈیشنرز، پانچ، پانچ سو واٹ کے 15 بلب ،3 عدد فریزر، 2 پانی کی موٹریں، 4 عدد ٹی وی، 2 واشنگ مشینیں، 4 عدد استریاں اور کچھ دیگر چیزیں دن رات چلتاہے بھلا یہ بھی کوئی چوری ہے چوری تو وہ لوگ کرتے ہیں جو پوری پوری فیکٹر ی کو چوری کی بجلی سپلائی کرتے ہیں، میں تو بس اپنے 2 کنال کے گھر کو روشن رکھنے کے لئے تھوڑی سی بجلی چوری کرتا ہوں۔
لیکن حکمران اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے کے لئے فوری طور پر کوئی اقدام ہی نہیں کر رہے، مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ کم تولتا ہوں حد سے زیادہ ناجائز منافع لیتا ہوں پھر بھی بڑی مشکل میں ہوں، اللہ جانے کب اس ملک کے حکمرانوں کو شرم آئے گی اور کب مہنگائی کم ہو گی؟ یار آج کل سچ کا زمانہ ہی نہیں رہا سارا دن جھوٹ ،فراڈ اور دھوکہ دہی کرتا ہوں پھر جاکے گھر کا چولہا جلتا ہے غریب تو جھوٹ مجبوری کی وجہ سے بولتا ہے۔
اگر حکمران سچ بولنا شروع کردیں تو ملک کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ارے بھائی جھوٹ بولنے والوں کے منتخب کردہ حکمران سچے اور مخلص کس طرح ہو سکتے ہیں؟ میں ہمیشہ سوچتا رہتا ہوں کہ کب اس ملک کو اچھے، قابل اور محب وطن لیڈر میسرآئیں گے؟ میں تو ووٹ اُسی امیدوار کو دیتا ہوں جو تھانے کچری میں اثر رکھتا ہو، جس کے ڈیرے پر چائے پانی کا انتظام چوبیس گھنٹے موجود رہے، شریف آدمی کو ووٹ دینے سے بہترہے کہ ووٹ ضائع کر دیا جائے جو شخص تھانے دار کو صاحب کہہ کر پکارتا ہووہ خاک کسی کو تھانے سے چھوڑ وائے گا۔
جسے رشوت لینے دینے کے اصول نہیں پتاہیں وہ الیکشن جیت کر بھی کسی کے کام نہیں آسکتا۔ میری نظر میں تو غنڈہ گرد قسم کے لوگ ہی ووٹ کے صحیح حق دار ہیں، شریف آدمی اگر وزیر بھی بن جائے پھر بھی کچھ نہیں کرسکتا، آج شرافت کی زبان کون سمجھتا ہے بھائی ڈنڈے کا دور ہے جس کا ڈنڈا اُس کی بھینس (بھینس مطلب پاکستان اور پاکستان کی حکمرانی ) میرے ہم وطنوں پاکستان میرا اور آپکا ہے۔ اس کے بھلے اور بُرے کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ جب تک ہم اپنی اپنی اصلاح نہیں کرلیتے ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali247@gmail.com. 03154174470