The United States, China, Pakistan and Afghanistan
تحریر: پروفیسررفعت مظہر 18 مئی کو امریکہ ، چین ، پاکستان اورافغانستان پر مشتمل چار ملکی مشاورتی گروپ کا اسلام آبادمیں پانچواں اجلاس ہوا ۔ یہ مشاورتی گروپ افغان طالبان کومذاکرات کی میزپر لانے کے لیے تشکیل دیاگیا ۔ اجلاس میں اِس عزم کااعادہ کیاگیا کہ افغان مسٔلے کے حل کاواحد راستہ مذاکرات ہیںاوراِس عمل کویقینی بنانے کے لیے رُکن ممالک اپنے تمام تروسائل بروئے کارلائیں گے لیکن اِس اجلاس کے صرف تین دِن بعدامریکہ نے بلوچستان میں افغان طالبان کے امیر ملّااختر منصور کو ڈرون کی غذابنا دیا۔ یہ ڈرون حملہ امریکہ نے کیاجس کااقرار خودصدربارک اوباما نے بھی کیا ۔ اُس کے لہجے کی رعونت اورفرعونیت کایہ عالم کہ اُس نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاںاُڑاتے ہوئے یہاںتک کہہ دیا” پاکستان میںایسی کارروائیاں جاری رہیںگی” ۔ امریکی خباثت کی انتہاملاحظہ ہوکہ اُس نے افغان طالبان کو پاکستان سے بَدظن کرنے کے لیے حکومتی سطح پریہ بیان جاری کردیاکہ ڈرون حملے پرپاکستان کے اربابِ اختیارکو اعتماد میںلیا گیاتھا ۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملّااختر منصورکی گاڑی پرحملہ کرنے کے سات گھنٹے بعد وزیرِاعظم پاکستان کواِس سے آگاہ کیاگیا جس پرامریکی سفیرکوپاکستانی دفترِخارجہ میںطلب کرکے احتجاج کیاگیا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری اوربین الاقوامی قوانین کی صریحاََ خلاف ورزی ہے ۔ 24 مئی کو وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد نے لگی لپٹی رکھے بغیریہ کہاکہ یہ صریحاََ ہماری سرحدوںکی خلاف ورزی ہے جوکسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ۔ اُنہوںنے یہ سوال بھی اٹھایاکہ ولی محمدیا ملّااختر منصور نامی شخص کوخصوصی طورپر پاکستان ہی میںکیوںنشانہ بنایاگیا جبکہ وہ کم ازکم پانچ دفعہ دبئی اوردو دفعہ ایران بھی گیا ۔ چودھری نثارنے کہا ”مُلّامنصور امن کی راہ میںرکاوٹ نہیںتھا ۔ اگرایسا ہوتا تووہ مری مذاکرات میںکیوں جاتا۔ لیڈرکو مارکر طالبان کومذاکرات کی میزپر نہیںلایا جاسکتا ۔ملّامنصور کومار کرامن مذاکرات کوسبوتاژ کیاگیا ۔
Nisar Ahmad
پہلے یہ کام ملّاعمر کی ہلاکت کے ذریعے کیاگیا۔ امریکہ طے کرلے کہ خطّے میںکون سی پالیسی جاری رکھناہے ”۔ چودھری نثار احمد نے یہ بھی کہاکہ ڈرون حملوںپر امریکی جوازماننا جنگل کے قانون کوماننے کے مترادف ہوگا ۔ پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کے نتیجے میںپیداشُدہ صورتِ حال پرغورکے لیے قومی سلامتی کونسل کااجلاس طلب کیاجا رہاہے جس میںپاک امریکہ تعلقات کاجائزہ لے کرآئندہ لائحہ عمل کااعلان کیاجائے گا۔ اِس قسم کے واقعات سے دونوں ملکوںکے تعلقات پرسنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ مری مذاکرات سبوتاژ نہ ہوتے توطالبان کی جانب سے قابل کوجنگ فری علاقہ تسلیم کیاجانے والاتھا۔
ملّااختر منصورکی ڈرون حملے میںہلاکت تاحال معمہ بنی ہوئی ہے ۔ امریکہ کویقین ہے کہ بلوچستان کے علاقے میںجس گاڑی کونشانہ بنایاگیا ، اُس میں ملّااختر منصورہی سوار تھاجبکہ گاڑی سے ملنے والا پاسپورٹ ولی محمدنامی شخص کاہے جسکی شکل اورحلیہ ملّااختر منصورسے بہت مشابہت رکھتاہے ۔ ویسے یہ بھی ایک معمہ ہی ہے کہ جس گاڑی کالوہا تک جل کے کوئلہ ہوگیا ، اُس گاڑی میںپاسپورٹ بالکل صحیح سالم کیسے رہ گیا؟۔یہ سوال بھی جواب طلب کہ افغان طالبان کے امیرکو آخریوں بھیس بدل کرتنہاسفر کرنے کی ضرورت ہی کیاتھی؟ ۔ حکومتِ پاکستان کی طرف سے توتاحال ملّااختر منصورکی موت کی تصدیق نہیںکی گئی لیکن چونکہ ”عالمی غنڈے” نے کہہ دیا اِس لیے دُنیانے تسلیم کرلیااور ملّامنصور کے خاندان نے بھی۔ شنیدہے کہ طالبان شوریٰ کااجلاس جاری ہے اورنئے امیرکے انتخاب تک طالبان ملّامنصور کی ہلاکت کااعلان نہیںکریں گے ۔
Afghanistan
سوال مگریہ کہ کیااسامہ بِن لادن ، ملّاعمر اور ملّااختر منصور کے لقمۂ اجل بن جانے سے ”عالمی غنڈے” کی افغانستان میںذلت آمیز شکست ، فتح میںبدل جائے گی ؟۔ آج بارک اوبامانے توکہہ دیاکہ ملّااختر منصور امن مذاکرات کادشمن تھالیکن اِس پریقین کون کرے گاکیونکہ مری میںہونے والے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں ملّااختر منصور خودشریک تھا ۔ امریکہ نے ایک دفعہ پھردوغلی پالیسی اختیارکرتے ہوئے ایک طرف تو18 مئی کوافغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تگ ودَوکا تاثر دیا اوردوسری طرف اُن کے امیرکو الم ناک موت سے دوچار کرکے امن مذاکرات کاباب ہی بندکر دیا لیکن اُسے یادرکھنا ہوگا کہ ملّااختر منصور کا ممکنہ جانشیں سراج الدین حقانی ہے جو نہ صرف یہ کہ امریکی ”خباثتوں”کو بخوبی سمجھتاہے بلکہ مذاکرات کاحامی بھی نہیں۔یہ صورتِ حال افغانستان کے لیے بہترہے نہ پاکستان کے لیے اوریہی امریکہ کامقصد ہے اوربھارت کابھی۔ بھارت توپہلے بھی کبھی مذاکرات کاحامی نہیںرہا لیکن اب امریکہ کے چہرے سے بھی منافقت کی چادر سرک گئی اورسب پرعیاںہو گیا کہ امریکہ کوافغانستان میںامن سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ وہ توپاکستان کے گردشکنجہ کسناچاہتا ہے
کیونکہ اُسے ایٹمی پاکستان پہلے قبول تھا ، نہ اب ہے اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے ۔ اُس کے پیٹ میں توپاک چائنا اقتصادی راہداری کے بھی مروڑ اُٹھ رہے ہیںاور ہمارا”جہنم سے نکلاہوا ” یہ اتحادی کسی بھی صورت میںاقتصادی راہداری کو پایۂ تکمیل تک پہنچتے نہیںدیکھ سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے اُس نےF-16 طیارے دینے سے انکارکیا اوراب انکم سپورٹ فنڈکی مَدمیں دی جانے والی 450 ملین ڈالرسالانہ امدادکو بھی روک رہاہے ۔ بھارت کی بات کچھ اورہے ۔ ایک تو وہ ہماراپڑوسی ہے اورپڑوسی بدلے نہیںجا سکتے اور دوسرے یہ کہ وہ ہماراکھُلا دشمن ہے اوراُس کی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیںلیکن امریکہ ”صاف چھپتا بھی نہیں ، سامنے آتابھی نہیں” ۔ یوںتو وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پاکستان کا اتحادی ہونے کاکھُلم کھلا اظہارکرتا ہے لیکن اُس کے اقوال نے کبھی اُس کے افعال کاساتھ نہیںدیا ۔
امریکہ ایک طرف توافغانستان میںمفاہمتی عمل کے لیے پاکستان سے توقعات وابستہ کرتاہے اوردوسری طرف اُس نے بین الاقوامی قوانین کی صریحاََ خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میںڈرون حملہ کرکے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی کی بلکہ امن عمل کوبھی تہس نہس کرنے میںکوشاںہے ۔ پاک امریکہ تعلقات میںپہلے ہی سردمہری ہے ، اب ڈرون حملے سے تعلقات میںمزیدبگاڑ کااندیشہ ہے ۔ دُنیاجانتی ہے کہ پاکستان نے افغان جنگ میںامریکہ کاساتھ دے کرگنوایا بہت کچھ ، پایاکچھ بھی نہیں ۔ اِس افغان جنگ کی بدولت ہمارے ساٹھ ہزار سے زائدشہری اورفوجی جوان شہیدہوئے ، ایک ارب ڈالرسے زائد کانقصان اِس اندھی جنگ کی نذرہوا اورمعیشت عشروںپیچھے چلی گئی ۔ اب جبکہ پاکستان اپنے قدموںپر کھڑاہونے کی سعی کررہا ہے توامریکہ اور بھارت کندھے سے کندھا ملاکر پاکستان کے خلاف صف آراہوگئے ہیں۔ ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ اِن حالات میںپوری قوم سیسہ پلائی دیواربن جاتی لیکن شومیٔ قسمت کہ ہمارے ”مہربانوں” کو اپنی کرپشن چھپانے سے ہی فرصت نہیں۔