جتنی آزادی اور کھلی چھٹی پاکستان میں عوام کو حاصل ہے اِتنی دنیا کے کِسی مُلک تو کیا جنگل میں کسی حیوان کو بھی نہیں۔پاکستان میں لوگوں نے آزادی کے نام پر جو اُودھم اور افراتفری مچا رکھی ہے اس سے دنیا کو باور کرا دیا گیا ہے کہ ہم کِس قماش کی قوم ہیں آزادی کے نام پر جب جی چاہا چھوٹی سی بات پر گولی چلا دی عورتوں اور بچوں کو اغواہ کیا راہ چلتے کو لوٹا بات بے بات بھڑک کر آگ بھڑکا دی وغیرہ وغیرہ۔
قانون ، انسانیت ، احساس ، انسانی ہمدردی ، اخلاق اور برداشت نام کے اِلفاظ کا اِس ملک میں وجود ہی نہیں ، جب یہ قوم زندگی گزارنے کے مفہوم سے ہی نابلد ہے تو آدابِ زندگی کا کلیو ان کی زندگی سے کوسوں دور ہے۔ جرمنی کے صوبے ساخ سن Sachsenمیں وزارتِ داخلہ نے نئے آنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کو یہاں کے کلچر و قانون پر عمل درآمد اور اس کی وضاحت کے لئے ایک مزاحیہ بروشر اشاعت کیا ہے جس میں وقت کی پابندی ، بلند آواز سے گریز اور بغیر ٹکٹ سفر کرنا وغیرہ کی تجاویز پناہ گزینوں کی سہولت اور مدد کے لئے درج ہیں۔
یہ بات ساخ سن کے وزیرِ داخلہ نے ایک انٹر ویو میں بتائی ، جب اُن سے سوال کیا گیا کہ اس قسم کے دقیانوسی تصوارت کیا واقعی مفید ہیں ؟ تو ان کا جواب تھا جی ہاں ، مزاح ایک اچھا عِلاج ہے ۔انیس سو ستانوے کے بعد دو ہزار تیرہ میں میں تارکینِ وطن کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے نئے آنے والے پناہ گزینوں کی وجہ سے حکومت اور دیگر ادارے خاص طور پر ایکٹو ہو گئے ہیں۔
صوبہ ساخ سن نے ایک مثال کے طور پر بائیس صفحات پر مشتمل اِس مزاحیہ کِتابچے کو پناہ گزینوں کے لئے اس لئے جاری کیا ہے کہ یہاں آنے والوں کو غلط فہمیاں نہ ہوں مقامی اور غیر ملکیوں میں ثقافتی رشتہ قائم رہے اور تنازعات کا کم سے کم خدشہ ہو ، وزیرِداخلہ نے کہا کہ یہ رنگین کتاب جسے مزاحیہ اوپریشن کہا جا سکتا ہے اس کا مقصد تارکین وطن اور مقامی لوگوں کے تعلق کو استوار کرنے کے ساتھ ان کی مدد اور سہولت کو یقینی بنانا ہے۔
ہر انسان مزاح کو سمجھتا ہے اس قسم کے مزاحیہ اوپریشن کارٹون واقعی مفید اور قابل استعمال ہیں ، مزاح کے ساتھ ہمارا مقصد آسان تفہیم حاصل کرنا ہے ہنسی مزاح کے ذریعے ہم غیر ملکیوں کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں اور یہی ہماری جیت ہے۔
غیر ملکیوں کے ادارے سے منسلک نمائندے نے کہا اس بروشر کے بارے میں بات نہیں کروں گا کہ اس میں درج نکات غیر ملکیوں کو ثقافتی ، ہم آہنگی ، اُن کی سہولت اور تنازعات کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ وہ کیسے اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں یا ان کے کیا حقوق ہیں یا ان پر کس طرح عمل کرنا ہو گا ، میرا موقف یہ ہے کہ دوسرے کلچر یا تہذیب و تمدن سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہاں رہنے کے کیا طور طریقے ہیں؟
ہمیں ان کے ساتھ مزاح کے انداز میں بات چیت کرنا ہو گی تاکہ وہ ہمارے برتاؤ کو سمجھ سکیں اور اُسے قبول کریں یہی وجہ ہے کہ اِس بروشر میں یہاں رہنے کے آداب اور طور طریقوں کو ایک مزاح کے انداز لیکن اس پر عمل کرنے کا طریقہ بھی سمجھایا گیا ہے جسے ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے، بہت سے حوالہ جات سے غیر ملکیوں میں خود ہی یہ شعور پیدا ہوا ہے کہ جرمن وقت کے پابند ہیں ، یا ہم فلاں فَلاں کام جرمنی میں نہیں کر سکتے، یا سرکاری دفاتر اور اداروں کے ملازمین تحائف وغیرہ قبول نہیں کرتے۔ بروشر میں اس بات پر خاص طور پہ زور دیا گیا ہے۔
ایسی صورت میں سزا ہو سکتی ہے علاوہ ازیں بروشر میں دفاتر ، سرکاری اور غیر سرکاری اداروں ، طبی اور تعلیمی معاملات کے بارے میں بھی تفصیلاً وضاحت کی گئی ہے۔
اس مزاحیہ بروشر کا شان دار خیال سوئیٹرز لینڈ کے ایک صوبے سے لیا گیا ہے ہمیں یہ اچھا محسوس ہوا کہ مزاحیہ نقطہ نظر سے موضوع کو تفصیل سے بیان کیا جائے ، ایک سال تک ہم نے اس کتابچے کو تکنیکی اور قانونی سانچے میں ڈھالنے کے بعد پرنٹ کیا ، تمام قانونی اور اہم کارروائی کے بعد حکام اور تمام اداروں کو مذاکرات کے لئے بلایا جن میں غیر ملکیوں کے معاملات سے منسلک ادارے ، ریگولیٹری ایجنسی ، یوتھ مائگریشن ، ری فیوجی کونسل ، سوشل سروسز ، میونسپل کمشنرز اور دیگر اداروں نے اس کانفرنس میں شرکت کی اور عملی جامہ پہنایا ، یہ بروشر چھ زبانوں پر مشتمل ہے۔
جن میں جرمن ، انگلش ، روسی ، فرینچ ، عربی ، فارسی اور ویت نامی زبانیں شامل ہیں ، ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امداد اور سہولت کا نیا طریقہ پازیٹیو تھا اب ہم اس بروشر کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بارے میں سوچ وبچار کر رہے ہیں کیوں کہ ہم چاہتے ہیں پناہ گزین میں امداد اور حکم کے درمیان توازن رہے بروشر میں یہاں رہنے کے آداب و اطوار اور روز مرہ زندگی گزارنے کی وضاحت کر دی گئی ہے ہماری کوشش اور اس پیش کش کی انسانی نقطہ نظر سے نہ کہ قانونی حیثیت سے پرکھا جائے۔
Regulation
ایک نظر آدابِ زندگی پر۔ جس شہر یا قصبہ میں آپ کی رجسٹریشن اور رہائش ہے اس علاقے سے باہر نہیں جا سکتے معقول وجہ اتھارٹی کو بتا کر کسی دوسرے شہر یا صوبے میں جانے کی اجازت لینی ہو گی بدیگر صورت سزا کے مستحق ہوں گے۔ آپ کی رہائش محدود جگہ پر مختلف لوگوں کے ساتھ ہوگی تنازعات اور ان کی روک تھام کے لئے ایک دوسرے سے باہمی احترام اور قوانین کی پابندی لازمی ہے۔ جرمنی میں رہنے کے لئے زبان سیکھنا بہت ضروری ہے سکول یا لینگوج انسٹی ٹیوٹ کی معلومات کے لئے متعلقہ اتھارٹی سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ حکام سے شائستگی سے ہم کلام ہوں۔
حکومتی اداروں کے ملازمین تحائف قبول نہیں کرتے انہیں کسی فورم میں آپ تحفہ نہیں دے سکتے ۔ بغیر ٹکٹ سفر کرنا جرم ہے کنٹرول ہونے کی صورت میں ساٹھ یورو جرمانہ ادا کرنا ہو گا بار بار خلاف ورزی کرنے پر منفی اثرات کے علاوہ سزا بھی ہو سکتی ہے۔
سرکاری دفاتر جب آپ کو بات چیت کے لئے مدعو کریں تو وقت کی پابندی بہت اہم ہے بدیگر صورت گزارہ الاؤنس میں کٹوتی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل جرائم ثابت ہونے پر سزا کے مستحق ہوں گے ۔ مثلاً اگر آپ کسی کو جنسی حراساں کریں ، جسمانی تشدد کریں ، رہائشی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں ، منشیات میں ملوث پائے جائیں ، جعلی دستا ویزات کا استعمال کریں یا بغیر لائسنس کے گاڑی چلائیں وغیرہ وغیرہ۔
جرمنی میں رہائش ، آدابِ زندگی ، آزادی یا پابندی کے چند نکات صرف اس لئے بیان یا تحریر نہیں کئے گئے کہ نئے آنے والے ان پر عمل کریں اور حکام بیورو کریٹی یا جرائم پر قابو پا سکیں بلکہ اس لئے روشناس کروایا گیا ہے کہ ریاست میں امن وامان قائم رہے اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ نئے آنے والے مقامی سوسائٹی میں رفتہ فتہ گھل مل جائیں ایک دوسرے سے باہمی اخلاق واحترام سے بات کریں اور دو طرفہ ثقافتی تعلقات میں اضافہ ہو ، غیریت پر اپنایت کا پلڑا بھاری رہے ان ہی تجربات سے لوگ فوائد حاصل کریں اور متحد ہو کر رہیں۔
آج جرمنی میں تین چار ممالک کے علاوہ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ رہائش پذیر ہے اور اِس ملک کے قوانین ، آدابِ زندگی پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے کم سے کم مسائل سے دوچار ہے۔ کاش پاکستان میں بھی کوئی ایسا فرشتہ پیدا ہو جو ملک کی تقدیر بدل سکے ۔کاش؟؟