پاکستان کا قیام گزشتہ صدی کا ایک بے مثل کارنامہ ہے ۔ ایک زندہ معجزہ ۔ اسلامیان جنونی ایشیا کی مثالی قربانیوں اور سعی مسلسل کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تو ہندو بنیا بڑی رعونت سے کہتا تھا کہ یہ کمزور ملک چند سال بھی نہیں نکال سکتا۔ ان لوگوں نے پاکستان کے اثاثے ہی پر قبضہ نہیں جمایا بلکہ کچھ خاص علاقے اور سینکڑوں نوابی ریاستیں نگل گئے۔ مقصد اس نوزائیدہ ریاست کو اس حد تک کمزور اور کھوکھلا کرنا تھا کہ یہ پھر ان کی گود میں آن گرے ۔ لیکن ” ڈرو کروڑ” کو کب پتہ تھا کہ اس کے مقابلے میں ایسے بے دست و پا لوگ ہیں جو بے تیغ بھی لڑیں تو سرخرو ہوتے ہیں’ کرار ٹھہرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی قائد اعظم کی رحلت کو سانحہ اس قوم کو اپنے بابا کی بے مثل شفقت سے محروم کر گیا انہیں یتیم بنا گیا ۔ لیکن کشمیر پر جب ہندو بنیے نے نظر رکھی تو یہ قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور اپنے سے دس گناہ زیادہ طاقتور حریف کے چھکے چھڑا دیئے۔
پھر وہ بوکھلا کر اقوام متحدہ پہنچا اور استصواب رائے کا جھوٹا وعدہ کرکے اپنی جان بچائی ۔پھر پینسٹھ کی جنگ بھی یہ سوچ کر لڑی کہ لاہور کے جم خانہ میں شام کی چائے پی کر اپنی جیت کا جشن منائیں گے۔ لیکن حیدر کے شیروں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ پھر اکہتر میں ” بت مل گئے کعبے میں صنم خانے سے ” کے مصداق مشرقی پاکستان دولخت ہو گیا ۔ لیکن پاکستانیوں نے ہار ماننا تھی نہ انہوں نے مانی ۔ پاکستان کی قوم ہر موقع پر سرخرو ٹھہری اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا ۔ بھارت نے خود کو ایٹمی طاقت ثابت کیا تو پاکستان نے بھی چند ہی دن بعد ایٹمی دھماکے کر کے خود کو دنیا کی پہلی ایٹمی اسلامی طاقت ثابت کیا۔ ترقی اور عروج کا یہ سفر جاری رہا اور اشفاق احمد مرحوم کے الفاظ میں ہم نے ” کانٹے سے کہوٹے تک کا سفر کر لیا ”
عروج کی یہ داستان اور ترقی کا یہ سفر تاحال جاری ہے اور قیامت تک جاری ہی رہے گا۔کیونکہ اس ملک کو محمد اور علی نے مل کر بنایا ہے تو پھر بھلا اسے کون ختم کر سکتا ہے ۔ یہ ہر گزرتے لمحے اوج ثریا کی جانب اپنا سفر جاری رکھے گا ۔ ان شاءاللہ
ہماری خوش بختی ہے کہ اول روز سے ہمیں ایک قوت ایمانی اور قربانی کے جذبے سے سر شار طاقت ور ترین فوج حاصل رہی ہے ۔ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ ہم نے ایک ناقابل شکست فوج پائی ہے جو ہر موقع پر فاتح رہی ہے ہر میدان میں سرخرو ٹھہری ہے ۔ بقا کا معاملہ ہو یا ملک کو کسی بحرانی کیفیت کا سامنا پاک فوج اس قوم کے دفاع و بقا کے لیے ہر دم تیار اور ہمہ وقت مستعد پائی گئی ہے۔
خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ اس ملک نے دنیا کے رنگ کئی بار بدلتے دیکھے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح نظر آیا کہ ہماری فوج نے ہر محاذ پر ڈٹ کر لڑا اور ہر لحاظ سے اس ملک کے دفاع کا فریضہ ادا کیا ۔ اس ملک کے دفاع کو گویا ناقابل شکست بنا دیا ۔ قربانیوں کی ایک ایسی بے نظیر داستانیں اپنے پاکیزہ لہو سے رقم کیں کہ عسکری ادب کا دامن ان کے ذکر خیر سے لبریز دکھائی دیتا ہے۔
کوئی ادارہ ہو یا کوئی ملک غلطیوں سے کسی کو مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ ہماری فوج نے بھی بہت بار سنگین غلطیاں کیں۔ بطور خاص سیاسی میدان میں اپنی غیر ضروری مگر غیر معمولی دلچسپی اور عمل دخل نے انہیں ہمالیہ سے بھی کہیں بڑی غلطیاں کروائیں اور مملکت کو شدید ترین بحرانوں کا شکار کر دیا ۔ ساٹھ کی دہائی میں ایشین ٹائیگر کہلوانے والے ملک نے ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ اقوام عالم میں ایک بھکاری اور منگتا بن کر رہ گیا ۔ پرائے آگ میں اپنا دامن جلوانے کی علت نے ہمیں افغانستان کے معاملات میں مداخلت بے جا مداخلت پر مجبور کر دیا اور پرائے آگ میں کود پڑے اور جیت کر بھی اپنی فتح کا جشن نہ منا پائے ۔ امریکہ نے حسب روایت ہم سے بے وفائی کی اور ہمارا ساتھ چھوڑ کر ہمیں ڈو مور کے جال میں پھنسا دیا ۔امریکی ایک بار پھر افغانستان میں گھسے تو انہیں پھر سے سہارے کے لیے پاکستانی کندھے کی ضرورت پڑی ۔ اور ہم ایک فوجی امر کی وجہ سے لڑکھڑا گئے ” ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا ” رہی سہی کسر اس بے وقت کے سجدے نے پوری کر ڈالی ۔ امریکی افغانی دلدل میں ایسے پھنسے کے اب تک ہاتھ پاؤں مارتے اور امداد طلب نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھتے پائے گئے ہیں۔
اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کرنے اور اسی ہزار جانوں کا نذرانہ دینے کے بعد ہم اس قابل ہو پائے ہیں اج ایک پر امن پاکستان میں سانس لے رہے ہیں۔
افغانستان میں عالمی طاقتوں نے جو گھناؤنا کھیل کھیلا وہ جدید انسانی تاریخ کا مکروہ ترین باب ہے ۔ ایک ایسا تاریک باب جسے دیکھ کر چنگیز و ہلاکو خان کی روح تک کانپ اٹھے ۔ امریکی سامراج نے روس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خائف ہو کر افغانستان میں ایک ایسی سرد جنگ کا آغاز کیا جس کا ایک ایک پہلو تاریخ کا عبرت انگیز باب ہے ۔ امریکی قیامت تک اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اس مقصد کے لیے پاکستانی کندھا استعمال کیا۔ پاکستانی فوج نے افغانستان کے محاذ پر روسیوں کو ایسی عبرت ناک شکست سے دوچار کیا کہ روس ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا۔
مقام افسوس ہے کہ پاکستان بھی اپنی فتح کا جشن نہ منا پایا ۔ بے وفا امریکی اپنے مقاصد کی تکمیل کے بعد چلتے بنے تو دکھوں نے اس دھرتی کا گویا راستہ دیکھ لیا ۔ پاکستان کو اپنی اس سنگین ترین غلطی کا ایسا خراج ادا کرنا پڑا کہ شاید ہی کسی ملک نے ایسا نقصان برداشت کیا ہو ۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم پھر بھی نہ سمجھ پائے کہ پرائے آگ میں کود کر دامن جلانے سے بہتر ہے کہ دور رہ کر اپنا گھر بچایا جائے ۔ امریکی پروردہ طالبان اور القاعدہ اپنے آقاؤں کو آنکھیں دکھانے لگے تو ان کا مکھو ٹھپنے کے لیے امریکہ کو پھر پاکستانی کندھے کی ضرورت پڑی اور ہم پھر ” جنج پرائی تے احمق نچے ” کوہ ہمالیہ سے بلند غلطی کر بیٹھے ۔ جس کے نتیجے میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر اور نوے ہزار شہدا کا نذرانہ پیش کر کے ہم اپنے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچا پائے ۔ پاک فوج نے شجاعت کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ جس کی مثال تک کوئی ملک پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اگر اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور طاقت ور اور شجاع فوج ہمیں حاصل نہ ہوتی تو القاعدہ اور طالبان کے ہاتھوں ہمارا حشر اس سے کہیں بدتر ہوتا جو ہم عراق شام لیبیا افغانستان یمن میں دیکھ چکے ہیں۔
کہتے عقل مند اور احمق دونوں غلطیاں کرتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ احمق انہیں دھراتا ہے جب کہ عقل مند زندگی سے سیکھتا ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں سے سیکھا ہے تبھی ہم اس بحران سے نکل پائے ہیں جو نجانے کتنی سلطنتیں نگل گیا ہے ۔ فوج یہ بات جان چکی ہے کہ حکقمت کرنا نہیں محافظ کا کام سرحدوں کی حفاظت ہوا کرتا ہے اور اسی کا نتیجہ ہم تیسری جمہوری حکومت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اس تیسری اسمبلی کے ساتھ پاک فوج ایک پیج پر ہیں ۔ اقوام عالم میں ہمارے قد کاٹھ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ ڈو مور کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم نے چھٹکارا پا لیا ہے۔
افغانستان سے پر امن انخلا کے لیے امریکہ پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے ۔ مزاکرات میں پیش رفت کے آثار نمایاں ہیں۔اور تو اور سعودیہ ایران تنازعہ کے حل کے لیے بھی پاکستان ثالثی سے ایک قدم آگے بڑھ کے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کشمیر کی آزادی کے لیے ایسی موثر آواز پاکستان نے بلند کی ہے کہ اس سے قبل ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ یہ سب فوج کے سیاست میں عدم کردار کی بدولت ممکن ہو پایا ہے ۔ پاک فوج ہر امکانی صورت حالات اور جارحیت کے ہمہ وقت تیار ہے ۔ اسے اس ملک کا دفاع کرنا بخونی آتا ہے اور اس نے ماضی میں بارہا اس کا ثبوت بھی دیا ہے۔
آخر میں میں اپنی فوج کو سیلوٹ کرتا ہوں ۔ ان کے کردار کو سراہتا ہوں اور بجا طور پر ان سے یہ آمدید بھی رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی سیاست میں عدم مداخلت کی اسی پالیسی کو جاری رکھیں گے اور پاکستان کی ترقی استحکام اور بقا کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے ان شاءاللہ