جماعت اسلامی حلقہ قبائل کے زیراہتمام نشر ہال پشاور میں صوبائی دارالحکومت کی تاریخ کے سب سے بڑے اور نمائندہ قبائلی امن جرگہ میں شریک ایک ہزار سے زائد قبائلی مندوبین شریک ہوئے۔ جس میں فاٹاکی تمام قبائلی ایجنسیوں کی بھر پور نمائندگی موجود تھی۔ جرگہ سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق، طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق، امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا و رکن طالبان رابطہ کمیٹی پروفیسر محمد ابراہیم خان، مولانا یوسف شاہ ، سابق ایم این اے شاہ عبدالعزیز، امیر جماعت اسلامی قبائل صاحبزادہ ہارون الرشید، زر نور آفریدی اور قبائلی عمائدین نے خطاب کیا۔
جرگہ میں جماعت اسلامی فاٹا کے امیر اور سابق ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کی تمام شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر متفقہ طور سے منظوری دے دی مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی فاٹا کے زیراہتمام پاک افغان بارڈر پر واقع سینکڑوں میل لمبی حساس قبائلی پٹی کے 80لاکھ محروم ومظلوم محب وطن قبائلی عوام کایہ نمائندہ قبائلی امن جرگہ قراردیتاہے۔کہ فاٹا کے عوام گزشتہ 67 سال سے آئینی ،قانونی، سیاسی ،جمہوری ،معاشی اور تعلیمی محرومیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔آئین پاکستان کی دفعہ 247کے مطابق فاٹا پارلیمنٹ اور عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہرہے۔گویا یہ دنیا کا واحد خطہ ہے۔جو آئینی طورپر سرزمین بے آئین بنا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین پاکستان میں ملک کے شہریوں کو دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق (جان ،مال وعزت) کے تحفظ کا قبائلی عوام کے لئے کسی قسم کا انتظام نہیں ہے۔رہی سہی کسر گزشتہ طویل عرصہ سے عالمی طاقتوں روس اور امریکہ کی فاٹا کے عوام پر مسلط کردہ جنگوں نے پوری کردی ہے۔مسلسل ڈرون حملوں ،بمباریوں گولہ باریوں اور فوجی آپریشنز کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ قبائلی عوام(بچے،عورتیں ،بزرگ) قتل ہزاروں زخمی لاکھوں بے گھر جبکہ لاکھوں نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔شہرکے شہر اور گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور یہ علاقہ عملی طورپر کھنڈر کا سماں پیش کررہاہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ فاٹا میں بدامنی اور انتشار پورے ملک اور خطے میں بدامنی اور انتشار کا سبب بن رہی ہے۔
فاٹا میں امن واستحکام ہی سے پورے ملک اور خطہ میں امن واستحکام قائم ہوگا۔لہٰذا قبائلی امن جرگہ پارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں اور وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کی قیادت میں آل پارٹیز قومی کانفرنس کی قرارداد کی روشنی میں ملک میں امن کے قیام کی خاطر حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کی بھرپور تائید کرتاہے۔امن جرگہ اس مشکل اور صبر آزما مذاکراتی عمل کو نہایت احسن طریقے سے نبھانے پر دونوں مذاکرات کمیٹیوں کے ارکان کو خراج تحسین پیش کرتاہے۔جرگہ تمام سٹیک ہولڈرز (حکومت +فوج+طالبان) سے امن کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور مذاکراتی عمل کو بارآور اور نتیجہ خیز بنانے کی پرزور اپیل کرتاہے۔نیز امن مذاکرات کی کامیابی کے خاطر سٹیک ہولڈرزسے جنگ بندی اور فائربندی میں توسیع کا مطالبہ کرتاہے۔جرگہ قبائلی عوام کی ہمہ جہت محرومیوں کے ازالہ کے لئے فاٹا میں ہمہ گیر آئینی ،قانونی ،سیاسی ،جمہوری، تعلیمی اور معاشی اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کرتاہے۔جرگہ میںامیر جماعت اسلامی سراج الحق نے حکومت پر واضح کیا ہے کہ امن کی چابی اسلام آباد میں ہے جس دن حکومت نے کھیل ختم کرنا چاہا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔آئین شکنی کرنے والے قبائلی علاقوں میں نہیں اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ داڑھی اور پگڑی والے دہشت گرد نہیں ۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد تو امریکہ ہے۔
Taliban
بھارت کے ساتھ تین جنگوں کے باوجود اسے پسندیدہ قوم قرار دینے والوں سے جب کہا جاتاہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ کی آگ پر پانی ڈالیں تو وہ تیل چھڑکنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ مسلمان اگر ملک میں شریعت کا نظام چاہتے ہیں تو یہ کوئی غلط مطالبہ نہیں۔ قبائلی علاقوں میں کبھی کسی نے پاکستان کا پرچم نہیں جلایا ۔پاکستان کی حفاظت کے لیے ایٹم بم سے بھی زیادہ قبائلی عوام کا اعتماد ضروری ہے۔ قبائلی عوام بغیر تنخواہ کے پاکستان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ مذاکرات کی کامیابی پاکستان کی کامیابی اور ناکامی پاکستان کی ناکامی ہے۔ قبائل پر باروداور لوہے کی بارش کرنے والے حکمران بتائیں انہوں نے 66سال میں قبائلی علاقوں میں کوئی یونیورسٹی، کالج یا ہسپتال قائم کیاہے کیا قبائل کے ایک کروڑ عوام کا ملکی وسائل پر کوئی حق نہیں؟۔
تمام تر مصائب اور مشکلات جھیلنے کے باوجود آج بھی قبائل میں کسی نے پاکستان کا پرچم نہیں جلایااور قبائلی علاقوں کے سکولوں اور تعلیمی اداروں میں دن کا آغاز پاک سرزمین شاد باد سے ہوتا ہے۔ کوئی قبائلیوں کو یہ نہ سمجھائے کہ پاکستانیت کیا ہوتی ہے۔ جیب میں گرین کارڈ رکھنے والے ہمیں یہ نہ بتائیں کہ پاکستان سے محبت کس طرح کی جاتی ہے۔ اس موقع پر سراج الحق نے ازخود پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے جس سے پورا نشتر ہال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے کہاکہ جب سے مذاکرات کا آغاز ہواہے ، ڈرون حملے بند ہو گئے ہیں ۔امریکہ مذاکرات کا مخالف ہوتا تو صدر اوباما مذاکراتی عمل کو کیوں سراہتے ؟ دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی کوشش کریں۔
نوازشریف ، چوہدری نثار علی خان مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی مشکلات کا صرف ایک حل ہے اور وہ مذاکرات کی کامیابی ہے۔ ملک میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات کو جاری رکھا جائے۔ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ قبائل ہمارے اختیار میں نہیں۔ قبائلی عوام سے امتیازی سلوک کیوں برتا جارہاہے ۔ قبائلی علاقوں میں استحکام سے ہی ملک کا استحکام وابستہ ہے ۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہاکہ آئین کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کرنے والوں سے کہتا ہوں کہ وہ خود آئین کو تسلیم کرلیں ۔ حکومت آئین پر عمل کرے اور قبائلی عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق دے۔ اس ملک کے آئین میں اسلام درج ہے اور پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ حکومت آئین میں درج اسلام کو نافذ کرے ہم طالبان سے بھی آئین کو تسلیم کروالیں گے۔ قائد اعظم نے قبائل کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ قبائل کی موجودگی میں مغربی سرحد پر ہمیں فوج رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم فوج اور طالبان دونوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ خدا کے لیے بندوق رکھ دیں اور مذاکرات سے معاملے کا حل نکالیں۔ قبائلی عوام فوج اور طالبان کی لڑائی میں پس کر رہ گئے ہیں۔ ایک کروڑ قبائلی عوام نے مذاکرات کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ عوام لاشوں کی نہیں امن ، علم اور ترقی وخوشحالی کی سیاست چاہتے ہیں۔ قبائلی عوام نے ہمیشہ پاکستان کی سلامتی ، دفاع اور تحفظ کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں لیکن آج انہیں دہشتگرد قرار دیا جا رہا ہے۔
اصل دہشتگرد وہ ہیں جنہوں نے آئین اور قانون کو پامال اور رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ خود قومی خزانے سے عیش و عشرت کرتے ہیں اور عوام پر غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی کو مسلط کر رکھا ہے۔