پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری

Pakistan Steel Mills

Pakistan Steel Mills

آج بات ہوجائے سیاست دانوں کی سیاسی بازی گری اور سیاست میں اِن کی بدزبانی اور اِن کے چَھچُھورے پن کی کہ سیاست دان اپنے مفادات کے خاطر سیاست کے وسیع و عریض میدان میں کیسے کودتے ہیں…؟ اور یہ کیسے اپنے مفادات کی جنگ لڑتے نظرآتے ہیں…؟ حالانکہ سیاست تو اِنسانوں کی ایسی آسمانی سرگرمیاں ہوتی ہیں جس سے لاکھوں اور کروڑوں اِنسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں بدلنے اور بننے سے وابستہ ہوتی ہیں مگر اِس کے لئے یہ بھی ضرور ی ہے کہ اِن کی طبیعتوں میں سنجیدگی اور بردباری کا عنصر غالب ہو اور اگر ایسانہیں ہے تو پھر سیاست کے نتائج کیسے خراب… اور کچھ ایسے ویسے ہوتے ہیں …؟ میرے لئے اِس سے زیادہ کچھ کہنا محال ہے۔

بہر حال ..! ایک موقع پر سیاست سے متعلق متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے سیاسی مشاہدات اور تجربات کے بعد یہ فرمایا تھاکہ” سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُور رَس ذمہ داریاں ہوتی ہیں، سیاست قوم کے وجود میں اِس کے احیا کی بنیاد ہوتی ہے”تو دوسری طرف سٹیونس کابھی اپنی تجربات اور مشاہد ات کے بعد سیاست سے متعلق یہ کہنا بڑی حدتک درست ہے کہ’ لگتاہے کہ سیاست کو ایک ایسا پیشہ بنا دیا گیا ہے کہ جس میں کسی قابلیت و مہارت کی ضرورت نہیں” جبکہ ہماری مُلکی موجودہ سیاسی حالات میں ایسا لگنے لگاہے کہ جیسے سیاستدانوں نے متحرمہ بینظیر بھٹو کے کہے کو بھولا کر خود کو سٹیونس کے قول میں ڈھال لیا ہے، اگرچہ اِس نقطے سے قطع نظرکہ سیاست میں ہرہفتہ ایک اہم ہفتہ ہوتاہے”مگر ہمارے سیاستدانوں نے تو تمام سیاسی رموز و آگاہی کی پرواہ کئے بغیر ہی سیاست کو ایساہی پیشہ بنالیا ہے جس سے متعلق سٹیونس نے کہا ہے۔

جبکہ اَب اِس میں کسی بھی صورت میں دورائے پیدا نہیں ہو سکتی ہے کہ آج ہماری موجودہ جمہوری حکومت کے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے مُلکی سیاست کو کُھلی تجارتی منڈی میں بدل دیا ہے اِس حوالے سے ابھی پہلے بات ہوجائے اِس خبر کی جو نجکاری کمیشن سے متعلق ہے خبرکے مطابق ” نجکاری کمیشن کے بورڈ کا اجلاس 10 فروری کو ہونے کا امکان ہے اور اِس کے فوری بعد پہلے ہی مرحلے میں پاکستان اسٹیل ملز کی فروخت کرنے کا عمل شروع ہو جائے گا جس کے بارے میں حکومت نے سینہ ٹھونک کر اور چیخ چلا کر اِس عزم کو دُھرایا ہے کہ اداروں کی نجکاری کے عمل پر اسٹیک ہولڈرز کی لاکھ مخالفت کے باوجود ہم اداروں کی فوری نجکاری کو مُلکی معیشت اور مُلک کے استحکام کے لئے اِنتہائی اہم سمجھتے ہیں،اورقومی اداروںپاکستان اسٹیل ملز، فیصلہ آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی(فیسکو)، مظفرآباد میں تھرمل پاور اسٹیشن (ٹی پی ایس) اور جینکو III سمیت جون 2014 تک مختلف سرکاری اداروں کی تیز رفتار ی سے ہونے والی نجکاری سے قومی خزانے میں 150 ارب روپے کا اضافہ کرنا حکومت کا ہد ف ہے،”یوں آج مجھے اپنے سیاسی بازی گروں کے بزنس مائنڈڈ ہونے اور اِن کے مفاد پرست اور خود غرض ہونے کا شک یقین میں بدل گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا ہمارے سیاسی بازی گرحکمران قومی اداروں کی آڑ میں دراصل مُلک کو جیسے تیسے کوڑیوں کے عوض بیچ دینا چاہتے ہیں…؟

PIA

PIA

اور اِس کے علاوہ اِن کی نہ تو کچھ سوچ ہے اور نہ ہی اِن کا آئندہ کا کوئی ایسا لائحہ عمل ہے کہ جس سے مُلک اور قوم کو فائدہ پہنچے اِن کے نزدیک تو بس اپنے تجارتی مقاصد ہی مقدم اور کارفرما ہیں جس کے لئے یہ 10 فروری کو نجکاری کمیشن میں قومی ادارو ں کی فروخت سے متعلق اِنمٹ اور دیرپا فیصلے کریں گے، اگرچہ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت کے نجکاری کمیشن نے PIA پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائین اور PR پاکستان ریلوے کی نجکاری کی مخالفت کی ہے، اِس پر راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائین اور پاکستان ریلوے دراصل دوایسے ادارے ہیں جن کے اثاثہ جات یعنی ہوائی جہاز اور ٹرینوں کی تصویریں صرف اشتہارات میں تو نظروں کو اچھی لگتی ہیں مگر اِن کی کارکردگی صفر صفر یا اِس سے بھی کم درجے کی ہے یوں اِن اداروں کی واقعی نجکاری کی جانی چاہئے تھی مگر حکومتی نجکاری کمیشن نے اِن دونوں اداروں کی نجکاری کرنے سے یوں انکارکردیا کہ اِن دونوں اداروں سے حکومتی اراکین اور وزراء کے اپنے ذاتی اور اِ ن کے خاندان والوں کے مفادات وابستہ ہیں۔

دونوں ادارے اول روز ہی سے خسارے میں چلتے رہے مگراِس کے باوجود بھی ہر دورِ حکومت میں یہ دونوں ہی ادارے حکومتی اراکین اور وزراء سمیت اِن کے خاندان کے ہر فرد کو مفت اور سستی سفری سہولیات فراہم کرتے ہیں اور دونوں ادارے مالی اور فزیکلی اعتبار سے بھی اپنی اپنی تباہی کے دہانوں پر پہنچے کے باوجود بھی حکومتی اراکین، ممبران اراکین پارلیمنٹ اور حکومتی وزراء سمیت اِن کے خاندان والوں کو ایسی ہی مفت اور سستی سفری سہولیات فراہم کر رہے ہیں جیسی یہ پہلے روزسے کیا کرتے تھے اِس وجہ سے حکومتی نجکاری کمیشن پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن اور پاکستان ریلوے کی نجکاری کی مخالفت کردی ہے۔

جبکہ کہیں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کا فیصلہ اِس لئے تونہیں کیا جا رہا ہے کہ یہ سندھ میں قائم ہے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اِس کی بنیاد رکھی گئی تھی اور ویسے بھی پاکستان اسٹیل ملز سے نہ تو حکومتی اراکین اور وزراء سمیت اِن کے خاندان کے کسی فردکا کوئی مفاد وابستہ ہے یہ توصرف اور صرف ایک پیداواری ادارہ ہے اور آج حکمرانوں کی نااہلی اور عدم توجہی کی وجہ سے اِس کی پیداواری صلاحیت بھی ختم ہو کررہ گئی ہے تو ایسے میں اِس وجہ سے اِس کی نجکاری بھی کی جارہی ہے…؟ کیا اَب ایسے میں پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری ایک بار پھر قومی المیہ ہوگی …؟ قبل اِس کے کہ ایسا کچھ ہو حکومت اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے پیداواری ادارے کی پیداوار بڑھائے ناکہ اِسے اپنا الوسیدھا کرنے کے لئے فروخت کر دے اگر حکومت نے ایسا کیا اور پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کی تو اِس کے مُلک پر بڑے مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

آج ہم پر وفاق میں جمہوریت اور جمہوری عمل کی آبیاری کی آڑ میں قومی اداروں کو شفافیت کا جھانسہ دے کر فروخت کردینے والے ایسے تجارتی مائنڈڈ حکمران مسلط ہیں تو وہیں وفاقی کے علاوہ صوبائی سطح پر ایسے سیاسی بازی گربھی ہیں جوہمارے اردگرد موجود ہیں اورہم پر منڈلارہے ہیں جنہیں ایک ایک صوبوں کی حکومت کے علاوہ کوئی زیادہ شرف حاصل نہیں ہے وہ بھی اپنے اپنے صوبوں میں اپنی اپنی داداگیری کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں کہ اِن کے کارنامے دیکھ اور پڑھ اور سُن کر کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے، حالانکہ یہ اپوزیشن میں ہیں مگردعوے اِن کے صاحبِ اقتدار کی طرح ہیں، میں بات کر رہا ہوں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف والوں کی جن کی حکومتیں اِن کے کرتوتوں کی وجہ سے وفاق میں تو نہیں بن پائی ہیں اگر اِن کے کرتوت ایسے ہی رہے تو ممکن ہے کہ اِن کی حکومتیں اگلے انتخابات میں صوبوں میںبھی ختم ہوجائیں وفاق میں حکومت بنانے کا دورکا معاملہ ہوگا مگرآج جہاں بھی اِن کی حکومتیں ہیںوہ اِنہیں بھی ٹھیک طرح چلانے کے قابل نہیں ہیں۔

اگرچہ اِس پر بھی قوم میں کوئی دوسری رائے نہیں پائی جاتی ہے مگر قوم یہ ضرور سمجھتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی والے صوبہ سندھ میں اور پاکستان تحریک انصاف والے خیبرپختونخواہ میں حکومتی اُمور کی انجام دہی میں بُری طرح سے ناکام ہو گئے ہیں بہرکیف..!میں نے اِس موقع پر اِن دونوں صوبوں میں قائم حکومتی جماعتوں والوں سے متعلق جو اور جتنابھی کہہ دیا ہے اِن یہ دونوں جماعتوں والوں کو اپنے لئے بہت سمجھنا چاہئے اور ضروری ہے کہ اَب یہ دونوں اپنا اپنا احتساب کریں اور اپنی اپنی حکومتی کارکردگیوں کا صاف شفاف جائزہ لیں اور جلد از جلد خود کو عوامی نمائندہ تصور کرکے قومی اور عوامی خدمات انجام دیں۔

جبکہ یہاں یہ امر یقینا کسی حد تک قوم اور خود پاکستانی سیاست میں سرگرم رہنے والے سیاسی بازی گروں کے لئے بھی پریشان اور حیران کُن ہے کہ پاکستان تحریک انصاف جو پہلے ہی اپنے صوبے خیبر پختونخواہ میں حکومت ہونے کے باوجود ناکام ثابت ہوئی ہے آج اگر مُلک میں مثالی اور دیرپا قیامِ امن کے عمل کے لئے تحریکِ طالبان والوں نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیتِ علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کوامن مذاکرات کے لئے اپنی کمیٹی میں شامل ہونے کا اعلان کر کے دعوت دی تو کیوں فوراََ ہی پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امن مذاکرات کے لئے طالبان کی نمائندگی کرنے سے انکارکردیا…؟اور ساری قوم کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی والوں نے کچھ اِن الفاظوں اور جملوں کے ساتھ زبان کھولی کہ” چئیرمین عمران خان طالبان کمیٹی کا کسی بھی حال میں حصہ نہیں بنیں گے جبکہ مذاکرات میں تعاون کریں گے اِس کے لئے ہمارے نمائندے رستم شاہ مہمند تو پہلے ہی کمیٹی میں شامل ہیں جبکہ اِسی طرح جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو حال ہی میں حکومت میں زبردستی کے حصے دار بننے ہیں اُنہوں نے بھی حسبِ روایت اپنی انتہائی احساس محرومی اور اپنی سیاسی بازی گری کا اظہار کرتے ہوئے طالبان پیشکش پر انکار کر دیا۔

اور یہ کہاکہ” وزیراعظم نے اِس موضوع پر ہم سے مشاورت نہیں کی موقع پر نظر انداز کر دیا گیا تاہم کمیٹیوں پر اعتماد ہے اِس حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر رہے ہیں یوں مولانا نے بھی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے اہم مذاکرات کا حصہ بننے سے صاف انکار کر دیا” اَب یوں لگتا ہے کہ جیسے عمران خان اور مولانا فضل الرحمن دونوں ہی نے اپنے آپ کو ایک اچھے اور بامقصد مذاکراتی عمل سے دور رکھ کر صرف تماشہ دیکھنے والوں اور باہر سے شور شرابہ کرنے والوں کی صف میں رکھنے کو ترجیح دی۔ حالانکہ آج وہ کون ہے ..؟ جو یہ نہیں جانتا ہے کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن دونوں ہی مُلک میں ڈرون حملوں اور شدت پسندوں کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کے بڑے سخت مخالف رہے ہیں اور شاید آج بھی یہ اِس پر قائم ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ اِن دونوں ہی سیاسی بازی گروں نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے …؟

آج قوم اِن کی اِس ڈرامے بازی پر اِن ہی سے خود جواب سُننے کی خواہش مندہے کہ عمران اور فضل الرحمن نے ایساکیوں کیا ہے…؟ کیا اِن دونوں پاکستان تحریک انصاف چئیرمین عمران خان اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا طالبان مذاکراتی کمیٹی میں شامل ہونے کا انکار اِن کا مُلکی سیاست میں غیر سنجیدہ اور چَھچُھورا ہونے اور اِن کا سیاست میں چَھچُھورے پن کا اشارہ تو نہیں دے رہا ہے…؟

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com