سندھ (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں وفاقی حکومت کی طرف سے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری اور ملازمین کو گولڈن شیک ہینڈ کی پیشکش کے ساتھ ملازمت سے برخاست کرنے کا فیصلہ ہزاروں افراد کے لیے شدید پریشانی اور بے یقینی کا سبب بنا ہے۔
قریب دس ہزار ملازمین جنہیں اپنی نوکریوں سے ہات دھونا پڑے گا، سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت سے بھی سخت ناراض ہیں۔ ادھر ایک ایسے وقت میں جب اسٹیل ملز کے موجودہ ملازمین کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے، اسٹیل ملز کے ریٹائرڈ ورکرز جو برسوں سے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کے واجبات کے منتظر ہیں نے بھی اپنے حقوق کی تلفی پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت ایک بار پھر جھوٹے وعدوں کے ساتھ اسٹیل ملز کے ورکرز کا منہ بند کر کے انہیں بے روزگاری اور غربت کی طرف دھکیل رہی ہے۔
اس بارے میں وفاقی حکومت کے تازہ ترین فیصلے کے بعد 9350 ملازمین نے گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ملازمت سے فارغ کرنے کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست درج کروائی ہے اور اس فیصلے کو غیر قانونی اقدام قرار دیتے ہوئے اسے رکوانے کی اپیل کی ہے۔
عدالت نے درخواست کی فوری سماعت کی استدعا منظور کر لی، اسٹیل ملز ملازمین کی درخواست پر سماعت غالباً اگلے ہفتے پیر کو دو رکنی بینچ کرے گا۔
دریں اثناء پاکستان اسٹیل ملز کے ریٹائرڈ کارکنوں، لیبر یونینز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز نے موجودہ حکومت پر سخت اعتراض کیا ہے۔ اس دوران اسٹیل ملز جسے پاکستان اسٹیلز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کے سابقہ اور موجودہ تمام ورکرز اپنے حقوق کے حوالے سے اپنا موقف لے کر سپریم کورٹ اسلام آباد تک پہنچے اور انہوں نے چیف جسٹس سے اسٹیل ملز کیس کی ایک مکمل چھان بین کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستان اسٹیل ملز کے ہزاروں ملازمین کو روزگار سے فارغ کرنے کے اعلان کے ساتھ حکومت نے 20 ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دی جس سے ملازمین کو گریجویٹی اور پروویڈنٹ فنڈ یکمشت ادا کرنے کے علاوہ ملازمین کو ایک مہینے کی تنخواہ کی ادائیگی کا وعدہ بھیکیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ ہر فرد کو اوسطاً کل تیئیس لاکھ روپے ادا کیے جائیں گے۔
اس سب کے باوجود اسٹیل ملز کے بہت سے ملازمین آخر کیوں ڈپریشن کا شکار ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ملازمتوں کے ختم ہونے کی خبر کے بعد متعدد ملازمین کو دل کے دورے تک پڑے ہیں۔ اس بارے میں ریٹائرڈ ایمپلوئیز یونٹی آف پاکستان اسٹیل، وائس آف پاکستان اسٹیل آفیسرز اور پاکستان اسٹیل ریٹائرڈ مظلوم ملازمین ایکشن کمیٹی نامی تنظیموں نے اپنی ملازمتوں کے عشروں پر محیط تجربات کی روشنی میں صوبائی حکومتی سطح سے لے کر وفاقی حکومت کی سطح تک اپنے مسائل اور خدشات پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
ریٹائرڈ ایمپلوئیز یونٹی آف پاکستان اسٹیل کے رہنماء نمیر اعظم اور سکریٹری مرزا مقصود نے ڈوئچے ویلے کو اپنے ایک مشترکہ بیان میں بتایا،”کنٹینر پر کھڑے ہوکر نیا پاکستان بنانے کے عزائم رکھنے والوں نے پاکستان اسٹیل اور اس کے ملازمین پر شب خون مار کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ حکومت پچھلی حکومتوں سے زیادہ مختلف نہیں۔‘‘ جب ڈی ڈبلیو نے نمیر اعظم سے پوچھا کہ انہیں موجودہ حکومت سے کیا شکایت ہے تو ان کا کہنا تھا،”ہمیں حیرت ہے کہ پی ٹی آئی کے لیڈران عمران خان، اسد عمر اور عارف علوی جو کو موجودہ حکومتی ستون ہیں، اس قدر ظلم، جبر اور نا اہلی کا مظاہرہ کریں گے، جو قانون سے متصادم ہو۔ وہ ایک جنبش قلم سے پاکستان اسٹیل ملز کے 9350 حاضر سروس ملازمین کو برطرف کر دیں گے۔ یہ ظلم کسی قیمت قابل قبول نہیں۔‘‘
نمیر اعظم جیسے ہزاروں معمر افراد اب اپنی آئندہ نسل کو بھی غربت، نا انصافی اور بے بسی کے دلدل میں پھنستا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کے ایک اور ریٹائرڈ ملازم شفاعت حسین نے ڈی ڈبلیو کو وزیر اعظم پاکستان کے نام دیے گئے ایک بیان میں کہا،” ہمیں تقریباً سات سال ہو گئے ہیں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ قریب ساڑھے چھ ہزار معمر ملازم سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار بوڑھے ملازم ریٹائرمنٹ پر ملنے والے واجبات کی آس میں اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں جبکہ 600 کے قریب واجبات نہ ملنے اور غربت کے سبب علاج سے محروم ہیں۔ حکومت وقت اب حاضر سروس ملازمین کو یہ 20 ارب کے قریب کے پیکج کی آس دلا کر فارغ کر رہی ہے۔ یہ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ ان کی موجودہ حکومت سے شکایت کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ شفاعت حسین نے کہا،”پہلی بات یہ کہ حکومت کے پاس حاضر سروس ملازمین کو دینے کے لیے 20 ارب روپے کہاں سے آ گئے جبکہ ہمارے سات سات آٹھ آٹھ سال سے واجبات رکے ہوئے ہیں اور جب ان سے کہا تو حکومت نے کہہ دیا کہ ان کا خزانہ خالی ہے۔ برطرف کیے جانے والے ملازمین کے لیے فوری طور سے ایک مہینے کی تنخواہ کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔‘‘
پاکستان کی وفاقی وزارت صنعت و پیداوار کا کہنا ہے کہ اسٹیل ملز ملازمین کو تنخواہوں اور بقایات کی فراہمی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کی جائے گی۔ وزارت کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے کے لیے اب تک پانچ بیل آؤٹ پیکیجز دیے جا چکے ہیں۔ دوہزار آٹھ سے اب تک اس سلسلے میں 58 ارب روپے دیے جا چکے ہیں۔ ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں کے لیے 33 کروڑ 50 لاکھ روپے اور دیے گئے ہیں۔ فوت ہو جانے والے ملازمین کے گھر والوں کو 26 کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں۔
وزارت صنعت و تجارت کے مطابق اسٹیل ملز نے سن 2015 میں اپنا کاروباری آپریشن بند کر دیا تھا۔ تب چودہ ہزار سات سو ترپن ملازمین سے متعلق کسی قسم کی منصوبہ بندی موجود نہیں تھی اور 2019 ء تک ان ملازمین کی تعداد کم ہوکر آٹھ سو چوراسی ہو گئی تھی۔
اس بارے میں ریٹائرڈ ایمپلوئیز یونٹی آف پاکستان اسٹیل کے رہنماء نمیر اعظم کا کہنا تھا،” بدقسمتی سے پاکستان اسٹیل ملز کو ہر سیاسی پارٹی نے تختہ مشق بنایا۔ تحریک انصاف کے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ہم ذرا خوش تھے کہ نیا پاکستان بنانے والے، ایک کروڑ نوکریوں کا بندوبست کرنے والے۔ پاکستان اسٹیل کا دورہ کر کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے اسٹیل ملز کو بحال کر دیں گے، اُسے تباہی سے بچا لیں گے۔‘‘
ادھر پاکستان کے معاشی امور کے متعدد ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ ایک عرصے سے سول حکومتیں پاکستان اسٹیل ملز کو اپنے اپنے مفادات کے لیے قربانی کا بکرا بناتی رہی ہیں۔ 2006 ء میں بھی ایک بار اسٹیل ملز کی نجکاری کا معاملہ اٹھا تھا۔ اُس وقت بھی سیاسی پارٹیوں کے بیچ مفادات کی جنگ چھڑی تھی اور آخر کار یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پیش ہوا تاہم عدالت نے اسے نجکاری سے روک دیا تھا۔
پاکستان کو اسٹیل ملز کا کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے۔ اسے بھٹو کی پہچان کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ کئی ماہرین کی رائے میں مگر اسے سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی پہنچا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معین آفتاب شیخ اور ریاض لال جی کے آصف علی زرداری سے بہت دوستانہ تعلقات تھے اور ان کی اسٹیل ملز کے معاملات میں مداخلت بہت زیادہ تھی۔ معین آفتاب کو اسٹیل ملز کا چیئرمین مقرر کرنے پر زرداری خاموش رہے۔ اس کے بعد 26 ملین کا اسکینڈل سامنے آیا۔
بتایا گیا کہ جب اس معاملے کی چھان بین کا سلسلہ شروع ہوا تو اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ نے کارروائی شروع کی۔ تاہم جونہی انہوں نے آصف علی زرداری کے قریبی لوگوں پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو طارق کھوسہ کو تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم نے بھی کوشش کی کہ اس کیک میں سے اپنا حصہ لے سکے لیکن اسے بہت زیادہ کامیابی نہ مل سکی۔ بعد ازاں اسحاق ڈار نواز حکومت میں اس منظر نامے پر ابھرے۔ الزام ہے کہ انہوں نے پانچ سال تک کوئی پلان نہیں بنایا اور نہ ہی اسٹیل ملز سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچانے کی کوئی کوشش کی گئی بلکہ پرائیوٹ سیکٹر نے اسے اپنے مفاد میں استعمال کیا۔
اب جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت بڑے بڑے دعوے کرتی ہوئی اسٹیل ملز کی خیرخواہی کا یقین دلا رہی تھی، جب اس حکومت سے بھی کچھ بن نہ پڑی تو اس نے بیٹھے بٹھائے اقتصادی رابطہ کمیٹی ‘ای سی سی‘ ملازمین کو فائر کر کے اسٹیل ملز کا قصہ تمام کر دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید عمران خان اور اسد عمر اس اتنی بڑی انڈسٹری کو دوبارہ فعال بنانے میں ناکامی سے خوفزدہ تھے۔