تحریر: خالد بن سلام روس کی معاونت سے 30 دسمبر 1973ء کو پاکستان میں بننے والا فولاد سازی کا پہلا ادارہ”پاکستان اسٹیل ملز” جس کا اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے سنگ بنیاد رکھا۔ اس ادارے کی سالانہ پیداوار 11 لاکھ ٹن سے 30 لاکھ ٹن سالانہ ہے، 18 ہزار 600 ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط ہونے کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے انڈسٹریل کمپلییکس کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان اسٹیل بجلی کی پیداوار میں خود کفیل تھا اور یہ ادراہ بجلی اور گیس کی مد میں 25 کروڑ روپے ماہانہ کی بچت کا حامل قومی ادارہ تھا۔ پاکستان اسٹیل ملز ملک کا واحد فولاد ساز ادارہ ہے، جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب 26ہزار ملازمین ہونے کے باوجود یہ ادارہ منافع میں تھا، اس ادارے نے ایک وقت میں سو فی صد پروڈکشن بھی دی ہے، تاہم ملکی ترقی میں ریڑح کی ہڈی کی حیثیت کا حامل یہ ادارہ اب خام مال کی قلت اور بدعنوانیوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور گذشتہ سات، آٹھ سال میں صرف خام مال کی خریداری میں بدعنوانی کے بیسیوں کیسز سامنے آچکے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کو اِس وقت مختلف اداروں کے واجبات اور تنخواہوں کی مد میں115 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ دن بہ دن خسارے میں کے کنویں میں ڈوبنے والے اس ادارے کے مالی بحران کا سب سے اہم سبب خام مال کی عدم دست یابی ہے، جس کی وجہ سے یومیہ اوسطاً 25 فی صد پروڈکشن ہورہی ہے
وسری جانب پاکستان اسٹیل ملز میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی نے مزدوروں کو ایک ایسی معاشی صورت حال سے دوچار کردیا ہے جس نے نہ صرف اْن کی عزت نفس بل کہ اْن کے مضبوط ارادوں کو بھی پاش پاش کردیا ہے۔ کسی ورکر کو کرایہ نہ دینے پر روز مالک مکان کی جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں تو کسی مزدور کے بچے فیس نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ذریعہ معاش کے حصول کے لیے کوشاں ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز میں ہر ورکر کے دن کا آغاز روز نئی آس کے ساتھ ہوتا ہے، تاہم کئی کئی ملازمین ایسے بھی ہیں جن کا کوئی مالی ذریعہ نہیں اور تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ادھار ملنا بھی بند ہو گیا۔ ملازمین کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند روز پہلے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہونے پر پاکستان اسٹیل کے ہسپتال لے جانے کا اتفاق ہوا۔
وہاں پہنچنے پر میڈیکل اٹینڈنٹ نے گھیر لیا ڈاکٹر سے چیک اپ کروانے کے بعد ایک طرف لے جا کر تنخواہ نہ ملنے دکھڑا بیان کرنے لگا اور کہا بھائی صاحب ذرا مہربانی کرنا پرچی نہ بنوانا میں آپ کا کام سستے میں کر دیتا ہوں لیکن کسی کو پتہ نہ لگنے پائے۔۔۔!!! مطلب انتظامی کرپشن کے بعد جو رہی سہی کثر ہے وہ تنخواہ نہ ملنے پر ملازمین نے پوری کرنے کی ذمے داری لے لی، یہ تو ایک ورکر کی بات تھی نہ جانے کتنے ایسے ورکرز ہوں گے جو پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر تنخواہ نہ ملنے پر ایسے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔اسٹیل ملز ملک کی معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ادارہ تھا لیکن افسوس کہ ایک قومی ادارے کے ساتھ ایسا حال کر دیا گیا جو دشمن کی معیشت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
Railway Project
دوسری طرف کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ منصوبہ 1969ء میں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھا تاکہ کراچی کے عوام کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں اور سڑکوں پر سے ٹریفک کے رش کو کم کیا جاسکے۔ اس منصوبے کے لئے ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں جس پر سالانہ ساٹھ لاکھ لوگ سفر کرنے کے قابل ہوسکیں، یہ منصوبہ کراچی کے عوام میں بے انتہا مقبول ہوا اور اپنے آغاز کے اگلے دس سالوں میں یعنی 1970ء سے 1980ء تک کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ104 ٹرینیں چلائی جانے لگیں جس میں سے80 ٹرینیں اصل ٹریک پر چلا کرتی تھیں جب کہ چوبیس ٹرینیں لوکل لوپ پر چلا کرتی تھی. 1990ء کی دہائی کے آغاز پر کراچی سرکلر ریلوے کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا، کراچی میں موجود ٹرانسپورٹ مافیا نے اس انتہائی اہم منصوبے کے خلاف سازشیں شروع کر دیں
جس سے1994ء میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو شدید مالی نقصانات اٹھانا پڑے اور اس منصوبے کی کئی ٹرینوں کو بند کرنا پڑا جس کے بعد بھی نقصانات کا خاتمہ نہ ہو سکا اور اس ادارے میں موجود کالی بھیڑیں اس منصوبے کو دیمک کی طرح چاٹتی رہیں اوربالآخر یہ منصوبہ1999ء میں حکومت کی جانب سے روک دیا گیا تاہم اس منصوبے کی افادیت کے پیش نظر 2005ء میں حکومت نے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کی منصوبہ بندی کی تو دوست ملک جاپان نے منصوبے کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر کا آسان قرضہ اور تمام تکنیکی سہولتیں بھی فراہم کرنے کا اعلان کیالیکن عدم دلچسپی کے باعث یہ اہم منصوبہ سرکاری فائلوں میںہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔یہی صورتحال محکمہ ریلوے کی ہے شیخ رشید کے دور تک محکمہ ریلوے ترقی کی راہ پر گامزن رہا اور پھر غلام احمد بلور کے دور سے ریلوے مسلسل خسارے میں رہا لیکن بھلا ہو نواز لیگ کی حکومت کے وزیر سعد رفیق کا کہ جس کی محنتوں سے محکمہ ریلوے نے خساروں کا دور ختم کیا اور ایک بار پھر ترقی کی راہ پر چلانے کی کوشش کی۔
Government
حکمران کیا نہیں کر سکتے، حکومت کے ہاتھ میں کیا نہیں ہے۔۔۔؟ جب چاہے جو چاہے کر سکتے ہیں کس سے کس انداز میں نمٹنا ہے کس کے ساتھ رحم دلی اور کس کے ساتھ سنگدلی کا معاملہ اختیار کرنا ہے، چاہے وہ ظلم کر کے بات منوائیں یا وہ رحم دلی کے ساتھ منوائیں لیکن شرط عوام کے ساتھ حکمرانوں کی سچائی کی ہے ۔ کیا ہمارے حکمران ہمارے ساتھ سچے ہیں اور وہ جو چاہیں وہ کروا سکتے ہیں۔ یقینا حکمران بہت کچھ کر سکتے ہیں اگر کرنا چاہیں۔ حالیہ دور حکومت میں کئی ایسے کام ہوئے ہیں جو پہلے ممکن نہ تھے۔ اب دیکھتے ہیں اسٹیل مل، دیگر قومی ادارے اور کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کب حکومتی ترجیحات کی فہرست میں آتے ہیں۔ خدا کرے کہ کوئی ایسی مجبوری آن پڑے کہ حکومت اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے ہی اس جانب توجہ دینے پرمجبور ہو جائے۔