تحریر: سید انور محمود عام پاکستانیوں اور خاص طور پر کراچی میں رہنے والوں کےلیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کیوں پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی کچرے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ یہ کچرا سات سال سے نہیں اٹھایا گیا ہے اور یہ اب پالوشن بن کر لوگوں کے پھیپھڑوں اور معدوں میں جارہا ہے کسی وقت بھی خطرناک بیماریاں پھوٹ سکتی ہیں۔ کراچی کی سڑکوں، اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے، آپریشن کراچی کے باوجود آج بھی یہ شہر اسٹریٹ کرائم کا گڑھ ہے۔کیوں شہر کراچی جو ملک کا معاشی حب ہےاس کا مئیر کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا کماوُ شہر کراچی لاوارث بنا ہوا ہے اور وزیر اعلیٰ سندھ سے کہہ رہا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ ہماری بھیجی گئی اسکیموں کو بجٹ میں شامل کرلیں ورنہ پھرہم احتجاج اور استعفوں کے آپشن استعمال کریں گے۔ کیوں سٹی کونسل میں دیگرپارلیمانی پارٹیوں نے بھی حکومت سندھ کے بجٹ کو مستردکردیا اور کہاکہ ہم احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ کیوں تحریک انصاف کراچی کے صدر اور کونسل میں پارلیمانی لیڈر نے کہاکہ کراچی کے ساتھ اس سے پہلے اتنی بڑی زیادتی کبھی نہیں ہوئی، بجٹ پر نظرثانی نہ کی گئی تو احتجاج کریں گے، اور کیوں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نے کہاکہ ہم نے بجٹ قبول کیا ہے نہ کریں گے، پرامن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ ان سارئے ’کیوں‘ کا جواب یہ ہے کہ ’’سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کراچی کے مسائل حل کرنے میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں رکھتی‘‘۔
کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے کئی ممالک کے برابر آبادی رکھنے والا یہ شہر اپنی دریا دلی اور وسیع آغوش کے لیے مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ اس شہر کا کوئی مہمان بھوکے پیٹ نہیں سوتا۔قدرتی بندرگاہ رکھنے والے اس شہر کی معاشی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہوئے قابض برطانوی حکمرانوں نے کراچی کو سندھ کا دارالحکومت بنایا تھا اورقیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے اسی شہر کو ملک کا دارالحکومت اور اپنا مسکن بنایا اور یہی مدفون ہوئے، اب کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ صوبہ سندھ میں گذشتہ آٹھ سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جوروٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کی خالق ہے۔سندھ کے وزیر اعلیٰ سیدمراد علی شاہ ان آٹھ سالوں میں دوسرئے وزیر اعلیٰ ہیں اور جن سے سندھ اور خاصکر کراچی کے عوام کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن سندھ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، جس کی وجہ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ ہے جو ہر طرح سندھ اور خاص طور پر کراچی کے وسائل کو اپنے کنٹرول میں کرکے لوٹ مار کررہے ہیں۔سندھ کے وزیر اعلیٰ نے 6 جون 2017 کو مالی سال 2017-18کا 10کھرب 43ارب روپے کا بجٹ اسمبلی میں پیش کیا۔ کراچی کے حوالے سے اس بجٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کراچی کیلئے 10ارب روپے کا خصوصی پیکیج شامل ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے اس بجٹ کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بجٹ کراچی کے شہریوں کی امنگوں کے خلاف ہے، سندھ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں منتخب بلدیاتی نمائندوں کی تجویز کردہ اسکیموں کےلیے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے ہیں جو عوامی مینڈیٹ کی تضحیک اور کونسل کا استحقاق پامال کرنے کے مترادف ہے،صوبائی بجٹ میں کراچی کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ میئر کراچی کا کہنا ہے کہ تمام کام پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ذریعے کرانے ہیں تو پھر لوکل کونسلوں کو ختم کر دیا جائے، زیادہ تربجٹ ان جگہوں پر لگایا جارہا ہے جہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
میئر کراچی کو شکایت ہے کہ بلدیاتی ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے کی بحالی اور سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ کا انتظامی اور مالیاتی نظام سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے جب کہ پورا نظام بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال ہے جہاں بلدیاتی نمائندوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔کراچی میں مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں،مسائل کے انبار سے نبرد آزما کراچی کے شہریوں کے لیے خدمت اور شہر کی تعمیرکرنے کی دعوے دار صوبائی حکومت اور اختیارات کا رونا رونے والی مقامی حکومت کے درمیان بیان بازی کے سوا اور کچھ نہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ دو کروڑ آبادی والے شہر کے مسائل کے حل کے لیے کوئی نظام میئسر نہیں، سابق صدرپرویز مشرف کے بعد سے اب تک کے بلدیاتی اداروں میں اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو وہ ’’تبدیلی نام ‘‘ کی ہے،کبھی کے ایم سی، کبھی زیڈ ایم سی کبھی کمشنری لیکن کام ندارت۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 8 برس سے کراچی کے شہریوں کو بلدیاتی نظام کے نام پر دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔
پورے سندھ میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور حکمران ترقی کے دعوے کر رہے ہیں․ پمپنگ اسٹیشن بند ہونے سے کراچی کو 6 کروڑ گیلن پانی کم فراہم کیا جارہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔سندھ کی پچاس فیصد آبادی کراچی میں بستی ہے جہاں ہر قومیت اور زبان بولنے والا آباد ہے لیکن کرا چی کے عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جارہا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے حصے بخرے کیے ہیں اور بلدیہ کو توڑ کر اپنا کنٹرول بڑھایا ہے اس کا کراچی پر اچھا اثر نہیں ہوا۔ ان علاقوں میں صرف اردو بولنے والے ہی نہیں، سب رہتے ہیں اور سب لاوارث بنا دیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت سے بھی سوال ہے کہ سندھ بالخصوص کراچی کو لاوارث کیوں چھوڑا ہوا ہے۔کیوں ملک کے معاشی حب کے لئے کوئی اسپیشل پیکج نہیں رکھا گیا،ملک کے دیگر حصوں کے لئے کراچی سے کما کر رقم مختص کی جا سکتی ہے تو کراچی کے لئے کیوں نہیں ۔ صرف ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے میئر وسیم اختر ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ کراچی کی دو کروڑ آبادی کے ساتھ سندھ حکومت کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی کو سندھ کا حصہ نہیں سمجھا جاتا،یہاں سے بھاری ریونیو ملنے کے باوجود کراچی کے شہری سہولیات کو ترس رہے ہیں۔
کراچی کی اس صورتحال کی زمہ دار سندھ کی دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں، ایم کیو ایم تو اب چار دھڑوں میں بٹ کر اپنی طاقت کھوچکی ہے، آج کراچی کے عوام کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس کی وجہ ایم کیو ایم کی سیاسی کمزوری ہے اور پیپلز پارٹی اس کا پورا فائدہ اٹھارہی ہے۔ لیکن ایسا کرکے پیپلز پارٹی کراچی کے عوام سے اور دور ہورہی ہے۔ کراچی والوں کو اپنا بنانے کےلیے موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کراچی والوں کے بھی حقیقی وزیر اعلیٰ بن جائیں تو پیپلز پارٹی کےلیے بہتر ہوگا ۔ سندھ حکومت سے مایوس ہونے کے بعد میئر کراچی وسیم اختر نے گورنرسندھ کے ذریعے وفاقی حکومت سے شہر قائد میں ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کےلیے وزیر اعظم نواز شریف سے 22 ارب روپے کے پیکیج کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر نواز شریف نے 2018 کے انتخابات کو سامنے رکھ کر میئر کراچی کا مطالبہ پورا کردیا تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد جس میں ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ(ن) بھی شامل ہوں گیں وجود میں آسکتا ہے جوسندھ سے بھی پیپلز پارٹی کا صفایا کر سکتا ہے۔