انگریزوں سے آزادی کی جنگ میں لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کے بعد جو وطن حاصل کیا گیا وہ دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ظہور پذیر ہوا۔عوام کی قربانیاں ، جد وجہد اور خون اس نئے وطن کی اساس ٹھہریں ۔پاکستان اس کرہِ ارض پر عوام کی قربانیوں کا ایک شاندار اظہار یہ تھا ۔ پر امن جدو جہد اور اس جدو جہد میں لاکھوں انسانوں کی قربانیاں اس کی پچان بنیں۔یہ ملک آگ و خون کے دریا کوعبور کرکے قائم ہو ا ۔ پاکستان کا قیام کسی مسلح جدوجہد یا جنگ و جدل کا نتیجہ نہیں تھابلکہ ووٹ کی پرچی نے یہ معجزہ سر انجام دیا تھا ۔جس زمانے میں پاکستان ووٹ کی پرچی کااستعارہ بنا اس وقت مسلح جدو جہد قوموں کی آزادی کا لازمہ سمجھا جاتاتھا لیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلح جدوجہد کی بجائے جمہوری جدوجہد سے پاکستان کے حصول کا سفر جاری رکھا جس کے نتیجہ میں ١٤ اگست ١٩٤٧ کو تخلیقِ پاکستان کا محیر العقول کارنامہ سرانجام پایا۔عوام کی جدو جہد فتح یاب ٹھہری لہذا جمہوریت پاکستانی عوام کے رگ و پہ میں سرائت کئے ہوئے ہے لہذا وہ اس سے کسی بھی حالت میں دست کش نہیں ہو سکتے۔
عوام سے ان کا جمہوری تشخص چھیننے کی بڑی کاوشیں ہوئیں لیکن عوام نے اپنی لازوال قربانیوں سے ایسی ہر کاوش کا ناکام بنا دیا۔شب خونوں کی داستان بڑی دراز ہے لیکن یہ اسے بالآخر جمہوری جدوجہد کے سامنے ہار ماننی پڑی ۔کوڑے ، ندانیں،پھانسیاں ،جلا وطنیاں اور سزائیں عوام سے جمہوریت کا حسن نہ چھین پائیں ۔یہ ایک طویل جدو جہد ہے جس میں بے شمار گمنام سپاہیوں کا لہو جمہوریت کے ماتھے کا حسن ہے ۔کوئی مانے یہ نہ مانے پاکستان صرف جمہوریت کے صدقے ہی قائم و دائم ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان کے استحکام کی بنیاد اس کا جمہوری تشخص ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ٧٤ سالہ طویل سفر میں سیاستدانوں سے بھی خطائیں ہوئی ہوں گی تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک پر آمریت مسلط کر دی جائے۔
پاکستان کسی مہم جوئی کیلئے نہیں بلکہ عوامی حاکمیت کے لئے قائم ہوا تھا لہذا ہم سب کو ہر قسم کی مطلق العنانی کی مذمت کرنی ہو گی کیونکہ یہی قائدِ اعظم محمد علی جناح سے سچی محبت کی غماز ہے،یہ قائدِ عوام ذلفقار علی بھٹو سے سچی چاہت کی دلیل ہے ،یہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے سچی وفا کا اظہار ہے۔سب کچھ سہا جا سکتا ہے لیکن پاکستان پر کسی طالع آزما کا وجود براشت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسا شہیدوں کے لہو سے غداری کے مترادف ہے۔قائدِ اعظم نے ہمیں اتحاد،تنظیم اور ایمان کا درس دیا تھا لیکن ہم نے ان کے ارشادات کو فراموش کرکے ذاتی اقتدار کی راہیں تراش لیں اور مارشل لائوں سے ملکِ عزیز کو پوری دنیا میں رسوا کیا۔ آزادی کے ہیروزپر پر غداری کے الزامات چسپاں کئے اور انھیں قابلِ تعزیر ٹھہرایا۔سیاسی مخالفین کو وطن سے غداری کے الزامات کی بنیاد پر جیلوں میں ٹھونسا اور ان کے لئے زندگی عذاب بنا دی۔جس کسی نے جھکنے سے انکار کیا اسے سرِ دار کھینچ دیا۔کیا یہ عجیب و غریب نہیں کہ ایٹمی صلاحیت کا بیڑہ اٹھانے والا نابغہ روزگار ردار و رسن کا حقدار ٹھہرا اور ہماری عدلیہ نے قتل کے جھو ٹے مقدمہ میں اسے قاتلوں کی فہرست میں شامل کرنے کا کارنامہ سر انجام دے دیا۔کیسی رسم ہے کہ یہاں جو کوئی بھی حکومتِ وقت کو چیلنج کرتا ہے وہ غدارِ وطن بن جاتا ہے۔
حکومتی مشینری اور اس کے کرتا دھرتا اسے غدار بنا کر چھوڑتے ہیں۔کسی کو کچھ سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن خفیہ ہاتھوں کی زبان سمجھنا یہاں کے بے ضمیر دانشوروں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ گھنائونا کھیل کھیل رہے ہیں لیکن چونکہ ان کے مفادات کی تکمیل ایسی ہی گھنائونی سازشوں سے پروان چڑھتی ہے لہذا وہ اس سے دست کش نہیں ہوتے۔وہ ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر ہر قسم کے اخلاقی دائرے کو روندھتے اور توڑتے چلے جاتے ہیں جبکہ انھیں احساسِ پشیمانی بھی نہیں ہوتا۔عوامی جدو جہد سے جب نئی صبح کا نیا اجالا جنم لیتا ے تو یہ سارا بکائو مال تتر بتر ہو جاتا ہے۔تاریخ کے صفحات پر ایسے بکائو گروہ کا کوئی نام نشان نہیں ہوتا بلکہ وہاں پر عوامی راج کی خاطر سینہ سپر ہونے والوں کی جدوجہد کی گرمی اور روشنی قلب و نگاہ کو مسحور کرتی ہے۔
بھارت اور پاکستان ایک ہی وقت میں آزادہوئے تھے لیکن دونوں کے سفر اور اندازِ حکمرانی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بھارت کی ترقی کا راز اس کی جمہوری جدوجہد بنی جبکہ پاکستان نے جمہوری سفر کی بجائے مارشل لائوں کا سہارا لیا،بندوق کے زور پر عوام کو اپنا مطیع بنایا،سنگینوں سے انھیں اطاعت پر مجبور کیااور غداری کے الزامات سے انھیں زندانوں کا مہمان بنایا۔جہاں پر سنگینیں راج کرتی ہوں ، وہاں پر جہمور کی آواز کمزور ہو جاتی ہے۔لیکن کب تک۔یہ آواز چونکہ عوامی سوچ کا اظہار ہوتی ہے لہذا دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
آمر اپنے بے پناہ جبر کے باوجود محض دیکھتا ہی رہ جاتا ہے لیکن یہ آواز تھمنے کا نام نہیں لیتی۔کبھی خوشبو بھی قید ہوئی ہے؟ کبھی جذبوں پر بھی پہرے لگے ہیں ؟کبھی ہوا بھی مٹھی میں بند ہوئی ہے؟ کبھی روشنی کو بھی کسی نے قید کیا ہے؟ قدرت کے انمول خزانوں کی طرح عوامی سوچ کے موتی سارے ماحول کو یاقوتی بنا دیتے ہیں لہذا عوامی سوچ سے تخلیق شدہ ماحول میں جنم لینے والی صدائیں اقتدار کے ایوانوں کو زمین بوس کر دیتی ہیں۔آمرِ وقت کرسیِ اقتدار پر متمکن تو ہو تا ہے لیکن اس کی طاقت سلب ہو جاتی ہے،وہ اب بھی قوت کا منبہ ہوتا ہے لیکن وہ خشک ہو چکا ہوتا ہے۔وہ اب بھی نحوت کا اشارہ ہوتا ہے لیکن اس کی نحوت روندھی جا چکی ہوتی ہے،اسے اب بھی اپنی سپاہ پر ناز ہوتا ہے لیکن اس کا یہ ناز اس سے رخصت ہو چکا ہوتا ہے۔
فضائوں میں گونجنے والی آوازیں اس کے جسم وجان سے زندگی کی رمق چھین لیتی ہیں اور وہ بے بسی کی تصویر بنا راہیِ ملکِ عدم ہو جاتا ہے۔(ایسے دستور کو ،صبح بے نور کو ،میں نہیں مانتا ) ایک شاعر کی نظم کا ایک مصرعہ تھا لیکن چونکہ اس کے علمبردار عوام تھے لہذا اس ایک مصرعہ کی ضربوں نے آمریت کے محل کو زمین بوس کر دیا۔ایک کے بعد ایک آمر تخت نشیں ہو تا رہا لیکن عوامی جدوجہد جاری و ساری رہی کیونکہ عوامی راج کی منزل ہنوز بہت دور تھی۔تاریخ نے طویل ترین اقتدار کے حاملین کو نظر انداز کر دیا ہے کیونکہ ان کا دورِ حکومت،جبر،ظلم، زیادتی اور نا انصافی پر استوار تھا ۔ محبت کا جواب محبت ہوا کرتی ہے۔ظلم سے کبھی کسی کی کھیتی پروان نہیں چڑھتی۔صدیاں گزر جانے کے باوجودنوشیرواں کا عدل آج بھی زندہ ہے اور انسانوں کے دلوں میں محبت کے جذبات موجزن کر تا ہے۔
کوئی کتنا بھی عظیم ہو جائے لیکن اگر اس میں عدل و انصاف کا شمہ نہیں ہوتا تووہ حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتا ہے۔عوام سے محبت،عدل و انصاف کا قیام،عفو در گزر اور اپنے مخالفین کے ساتھ مساوی سلوک ہی وہ اعلی بنیادیں ہیں جس پر عظیم معاشرے استوار ہوتے ہیں۔اسلام تو دشمنوں سے بھی عدل و انصاف کی تلقین کرتا ہے ۔محبت کی نہیں کیونکہ محبت کے سوتے دل سے پھوٹتے ہیں لہذا دشمن سے محبت ہو نہیں سکتی لیکن عدل و انصاف کا قیام ممکن ہوتا ہے۔ہمارے ہاں سیاسی مخالفین کو ذاتی اقتدار کی خاطر غدار بنانے کی جو روش چل نکلی ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔اقتدار کبھی کسی سے وفا نہیں کرتا لیکن انسان ایسی روایات کو فروغ تو دے سکتا ہے جس میں معاشرہ تقسیم کی بجائے یگانگت کی لڑی میں پرویا جا سکے ۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال