پاکستان سپر لیگ کو پاکستان لانا ہے

Cricket

Cricket

تحریر : شیخ خالد ذاہد
میدانوں میں کھیلے جانے والے کھیلوں میں کرکٹ کا تیسرا نمبر ہے۔ کرکٹ کی ابتداء برطانوی راج میں ہوئی اور آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرنے والوں نے اس کھیل کو کھیلنا شروع کیا۔ اگر اس کھیل کی ابتدائی شکل پر نظر ڈالیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہ کوئی بہت رعب و دبدبے والے لوگ ہیں جو بہت دلکش طریقے سے اس کھیل کو کھیل رہے ہیں۔ چھ دنوں پر محیط ہونے والے مقابلے بغیر کسی ہار جیت کے اختتام پذیر ہوتے تھے مگر کرکٹ کے شوقین بہت اہتمام سے صبر و تحمل کے ساتھ چھ دن تک میدانوں میں براجمان رہتے۔ کرکٹ عرصہ دراز تک روائتی کھیل کے طور پر جانا جاتا رہا اس کھیل کی روائتی شکل آج بھی پانچ روزہ ٹیسٹ میچوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ چھ روزہ دن کے ساتھ ساتھ 1971 میں ایک روزہ یا محدود اورز کے مقابلوں کا انعقاد ہوا اور اس کی ابتداء بھی بھی آسٹریلیا کی سرزمین پر ہی ہوئی۔

سولویں صدی سے شروع ہونے والے کرکٹ کےسفر میں پہلا بھوچال بیسویں صدی میں آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا نے تیزی سے ترقی کا سفر شروع کردیا تھا۔ آسٹریلیا کی ایک کمپنی “نائن نیٹورک” کے مالک کیری پیکر نے “ورلڈ سیریز کرکٹ” کی بنیاد ڈالی۔ کیری پیکر نے دنیائے کرکٹ کے ستاروں کو سمیٹ کر ایک کہکشاں بنانے کا ارادہ کیا۔ جو کہ بظاہر کامیاب نا ہوسکا یہ تو ہوتا ہی ہے کہ تبدیلی ذرا دیر سے ہضم ہوتی ہے۔ کیری پیکر نے پہلی دفعہ رنگین کپڑوں اور سفید گیند والی کرکٹ متعارف کروائی۔ اس وقت اس کرکٹ سریز میں شامل کھلاڑیوں پر اپنے اپنے ملکوں میں پابندی لگانے کی دھمکیاں دی گئیں اور اس طرز کی کرکٹ کو بہت برا بھلا کہا گیا۔ کرکٹ کی دنیا میں بھونچال تو آچکا تھا۔ ایک نئی سوچ نے جنم تو لے ہی لیا تھا۔ پھر آسٹریلیا ہی وہ ملک تھا جہاں رات کی کرکٹ کا آغاز ہوا وہ جو کرکٹ کے موجد تھے وہ اپنی ہی کرکٹ میں مست تھے۔ دنیا نے 1992 میں کرکٹ کا عالمی مقابلہ بھی دیکھا جو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں مشترکہ طور پر منعقد ہوا۔ بس پھر کیا تھا تبدیلی کی داغ بیل ڈلی جا چکی تھی۔ اس کے بعد کرکٹ کے تمام عالمی مقابلے رنگین کپڑوں اور سفید گیند سے برقی قمقموں کی روشنیوں میں ہوتے چلے گئے۔

وقت کی قلت ہونا شروع ہوگئی مگر کرکٹ دیکھنے والوں کا شوق کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا۔فروری 2005 میں پہلا بین الاقوامی ٹوئنٹی20 کا مقابلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مابین ہوا۔ دنیائے کرکٹ میں ایک نیا جوش اور ولولہ آگیا۔ آج اس طرز کی کرکٹ کا ان ممالک میں بھی بول بالا ہے جو ابھی تک کرکٹ کھیلنے سے قاصر ہیں۔

برِصغیر میں کرکٹ، باقی ساری دنیا سے کچھ ذیادہ ہی مشہور ہے، یہاں کے بچے بوڑھے مرد اور عورت ہر عمر کے لوگ اس کھیل کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔یہاں اگر جیتنے پر پھولوں سے لاد دیا جاتا ہے تو ہارنے پر گھروں پر پتھر بھی برسائے جاتے ہیں۔ کرکٹ کے بین الاقوامی ادارے کو جتنا برِصغیر سے پیسہ ملتا ہے شائد ہی کسی اور خطے سے ملتا ہو۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ سوائے بھارت کے باقی پانچ ممالک میں امن و امان کی وجہ سے یہ کھیل نا ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں تومارچ 2009 میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے پاکستان میں تو بین الاقوامی مقابلوں پر پابندی ہی لگی ہوئی ہے۔ زمبابوے کی ٹیم نے ایک انتہائی سخت سیکیورٹی میں پاکستان کا دورہ بھی کیا مگر وہ دورہ بھی قذافی اسٹیڈیم تک ہی محدود تھا اور اس دورے پر امادہ کرنے کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے پیسہ بھی پانی کی طرح بھایا۔ مگر خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ ہمیں نا صرف کرکٹ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا سامنا ہے بلکہ ہم کرکٹ سے جو زرِمبادلہ کما سکتے ہیں وہ ہم نہیں کما پا رہے۔ ہمیں اپنی ہوم سریز بھی متحدہ عرب امارات میں کھیلنی پڑتی ہیں جوکہ یقیقنا ً بہت مہنگی پڑتی ہیں۔

Pakistan Super League

Pakistan Super League

ٹوئنٹی20 کا آغاز تو کرکٹ اور کھلاڑیوں کیلئے انتہائی سودمند ثابت ہوتی جارہی ہے۔ سب سے پہلے “انڈین پریمئر لیگ” ذکر کرنا چاہونگا جنہوں نے کرکٹرز کیلئے تجوریوں کے منہ کھول دئے اور ایک نئے طرز کی کرکٹ کی بناد ڈال دی۔ دنیا جہان سے اچھے کھلاڑی چنے جاتے ہیں اور پھر ان کی بولی لگتی ہے اور بولی لگانے والے کوئی بڑے کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔اس لیگ کے بعد تو ہر ملک نے اسی طرز کی لیگز کروانی شروع کردیں۔ جن میں بنگلادیش، سری لنکا، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ شامل ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کیلئے یہ صورتحال انتہائی گھمبیر تھی مگر جہاں کوشش ہو وہاں قدرت راستے بنا ہی دیتی ہے۔ پاکستان سپر لیگ تقریباً دو تین سال کی محنت و کاوشوں سے دبئی میں منعقد کرانے کا فیصلہ ہوا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششیں 2016 میں رنگ لائیں اور پہلا پاکستان سپر لیگ کا انعقاد ہوا جس کی کامیابی اور ناماکامی پر تو کوئی بات نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس بات پر کہ اللہ کے فضل و کرم سے اس کا انعقاد تو یقینی ہوا۔ دنیا بھر سے کھلاڑیوں نے نا صرف اس میں شرکت کی بلکہ تمام تر سہولیات کو سراہایا بھی گیا۔

“پاکستان سپر لیگ کو پاکستان لانا ہے” کا عزم لئے اگلے مرحلے کی تیاریاں ہوتی رہیں اور 9 فروری کی رات دنیا نے ایک بار پھر پاکستانیوں کے عزم اور حوصلے کی منہ بولتی تصویر دیکھی جب پاکستان سپر لیگ کا دوسرا مرحلے کا افتتاح ہوا۔ پاکستان نے دنیا کو اور خصوصی طور پر اپنے خاص دشمن کو شش و پنج میں ڈال دیا پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کارنگا رنگ آغاز ہوگیا۔اس ایڈیشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا فائنل لاہور میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں بین الاقوامی کرکٹ پرپابندی لگی ہوئی ہے گوکہ دشمنوں کی کوشش تھی کے پاکستان کی کرکٹ پر ہی پابندی لگ جاتی۔ گزشتہ 8 سالوں سے ہم پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ اور کھلاڑیوں کو دیکھنے سے محروم ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے ٹیسٹ کرکٹ میں نمبر 1 ٹیم بن کر دنیا کو دیکھایا۔ آج بھی ہماری ہار ہو یا جیت ہم کرکٹ کی صفہ اول کی ٹیموں میں سے ایک ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومتِ کی کوششوں سے انشاءاللہ کرکٹ پاکستان میں واپس آئے گی اور بین الاقوامی مقابلے بہت جلد ہمارے بے رونق میدانوں کی زینت بنینگے۔ ہم نے اپنے ہر ہر عمل سے دنیا کو باور کروایا ہے کہ ہم جو ٹھان لیتے ہیں وہ کر کے دیکھاتے ہیں۔ نجم سیٹھی صاحب، شہریار خان صاحب اور ان کی مکمل ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ ناموافق حالات اور دشمن کی چالوں سے خود کو بچاتے ہوئے پاکستان سپر لیگ کا انعقاد کیا اور مجھے یقین ہے دنیا کو خصوصی طور پر بین الاقوامی کرکٹ کونسل کو پاکستان میں بین الاقوامی کو بھیجنا ہوگا۔

ہم سب پاکستانیوں کو پاکستان میں کرکٹ کیلئے سماجی میڈیا، پرنٹ میڈیا اور ٹیلی میڈیا کے توسط سے دنیا کو یقین دلانا ہوگا کہ ہمارا پڑوسی ملک ہمارے خلاف سازشیں کرتا چلا آرہا ہے اور یہ بھی ایک سازش کہ تحت ہے کہ پاکستان میں کرکٹ نا ہو، لیکن ہم دنیا کو یقین دلاتے ہیں ہم زندہ دل لوگ ہیں ہم افہام و تفہیم پر یقین رکھتے ہیں اور کھیلوں سے تو حد درجہ محبت کرتے ہیں۔ انشاءاللہ ہم کامیاب ہونگے اور بس کچھ ہی دیر میں بین الاقوامی کرکٹ ہمارے میدانوں میں جلوہ گر ہوگی۔ ہم نے اس مضمون کے توسط سے اپنا حصہ ڈال دیا ہے اب آپ کی باری ہے۔ یہاں ہار اور جیت کی کسی کو فکر نہیں ہے فکر ہے تو بس پاکستان میں کرکٹ کو واپس لانے کی۔

Sheikh Khalid Zahid

Sheikh Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد ذاہد