تحریر : مہر علی رضا پاکستان سپر لیگ اپنے اختتام کو پہنچا ۔اس کا مقصد نئے ٹیلنٹ کو موقع فراہم کرنا اور پاکستان میں کرکٹ کی بحالی تھا۔لیکن کیا اس لیگ کے مقاصد پورے ہوئے ہیں؟ کیا پاکستان کو نیا ٹیلنٹ ملا ہے؟ کیا جو نیا ٹیلنٹ ملا ہے انہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف موقع دیا جائے گا۔لیکن سوال ہے کہ پاکستان سپر لیگ میں پھروہی چلے ہوئے کارتوس کیوں چلائے گئے؟ رفعت اللہ جس نے اسلام آباد نمائندگی کرتے ہوئے چند میچز کھیلے لیکن اچھی پرفارمنس دینے میں ناکام رہے آپ کسی نوجوان کھلاڑی کو موقع دیتے تو زیادہ اچھا ہوتا اگر دیکھا جائے تو ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ٹیلنٹ کو خود ضائع کیا جارہا ہے۔مصباح الحق کی پرفارمنس بھی اتنی اچھی نہیں رہی۔مصباح الحق جن کا کیرئیر اختتام کی جانب گامزن ہیں۔جس کی ریٹائرمنٹ قریب ہے ۔مصباح الحق یقینا اچھے کھلاڑی ہیں لیکن ٹی ٹونٹی لیگ میں کپتان بنایا گیا۔فرض کریں اگر اس بار بھی ان کی قیادت میں اسلام آباد جیت جاتی تو کیا انہیں ٹی ٹونٹی کے لیے دوبارہ منتخب کیا جاتا؟ انہیں ٹی ٹونٹی میں موقع دئیے جانے کو کائی فائدہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی کرکٹ کھیل چکے ہیں اور ان کی کارکردگی پچھلے کافی میچز میں اچھی نہیں رہی ۔ون ڈے اور ٹی ٹونٹی کی قیادت سنبھالنے والے سرفراز بھی اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے جو تشویشناک ہے۔اس طرح کئی کھلاڑی ہیں جو توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ۔ لیکن اس بار پاکستان سپر لیگ میں شاہد آفریدی نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فینز کے دل جیت لیے۔جس سے ثابت ہوتا ہے وہ اب بھی کوئی بھی میچ جتوا سکتے ہیں ۔شاہد آفریدی انٹرنیشل چھکوں میں تو آگے ہی ہیں لیکن اس بار پاکستان سپر لیگ میں بھی چھکوں میں سب سے آگے رہے۔میرے خیال میں شاہد آفریدی اب بھی ٹی ٹونٹی کھیل سکتے ہیں۔کیونکہ ٹی ٹونٹی فارمیٹ کے آفریدی ہیرو ہیں اور کبھی بھی مشکل میچ جتوانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔کامران اکمل کی عمدہ پرفارمنس ان کے لیے قومی ٹیم کا بند راستہ کھول دے گی ؟ میرے خیال میں کامران اکمل کو ایک موقع دیناچاہیے جس طرح انہوں نے سنچری سکور کی اور پورے پی ایس ایل میں سب سے زیادہ رنز بنائے اور عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان سپر لیگ کا یہ ایڈیشن دوسرے کی نسبت کافی اچھا رہا۔ پاکستان سپرلیگ کا جادو پورے پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی دیکھا گیا۔سروے کے مطابق بھارت میں بڑی تعداد میں لوگوں نے پی ایس ایل دیکھا۔اس بار سب میچز سنسنی خیز ہوئے ۔پلے آف کا پہلا میچ جو کوئٹہ اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلا گیا ۔آفریدی عمدہ پرفارمنس دکھاتے ہوئے میچ کو جیت تک لے گئے۔لیکن پھر پشاور زلمی کی وکٹیں اچانک گرنا شروع ہوگئیں اور پشاور ایک رنز سے جیتا ہوا میچ ہارگیا۔اس بار ٹرافی پشاور زلمی کے حصے میں آئی۔اگر دیکھا جائے تو اس سپر لیگ کے سب میچز سنسنی خیز ہوئے جنہوں نے شائقین کو کشش فراہم کی اور اسی وجہ سے آخری میچز میں سٹیڈیم بھرے بھرے نظر آتے تھے۔دبئی اور شارجہ میں موجود پاکستانیوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔اس ایڈیشن میں کافی میچز یادگار رہے گے۔لاہور قلندر اور کراچی کنگز کے درمیان کھیلا جانے والا میچ بھی یادگار رہے گا۔جب پولارڈ نے آخری اوور میں کراچی کنگز کو جتوایا ۔ لیکن دھوم فائنل میچ کی تھی لیکن شائقین کو وہ مقابلہ دیکھنے کو نہیں ملا جس کی سب توقع کررہے تھے کیونکہ یہ میچ یک طرفہ ثابت ہوا۔اس بار دیکھا جائے تو پشاور زلمی نے اچھی کارکردگی دکھائی جب کہ لاہور قلندر دوسری بار لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی۔اسلام آباد کو شرجیل خان اور خالد لطیف کے نہ ہونے کی وجہ سے بڑا دھچکا لگا اور کراچی کنگز بھی متاثر کھیل پیش نہیں کرسکی۔ان کی ٹیم میں بڑ ے بڑے نام تھے لیکن سب اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہوگئے۔پچھلی بار لاہور قلندر کی ٹیم سے کھیلنے والے کرس گیل اس بار کراچی کنگز میں بھی شائقین کو متاثر نہیں کر سکے۔کوئٹہ گلیڈی ایٹر دوسری بار فائنل ہاری جو ان کی ٹیم کے لیے مایوس کن ہے۔پیٹرسن، رائلی رسوواور ملز کی کی وجہ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹر کی ٹیم کافی مضبوط تھی لیکن ان کے جانے کی وجہ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹر کا فائنل میچ جیتے کا خواب ادھورا رہ گیا ۔فائنل میں پیٹرسن کا خلا پر نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے کسی کھلاڑی نے متاثر کن کارکردگی نہیں دکھائی اور 149رنز کے تعاقب میں 90رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ان پلیئرز کے جانے کی وجہ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹر ٹیم کمزور ہو گئی اور آسانی سے پشاور کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے۔ پیٹرسن کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیٹرسن کی موجودگی میں کوئٹہ ٹیم 200کا ہدف حاصل کرنے والی ٹیم اس کے بغیر 90رنز پر آئوٹ ہوگئی۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹر میں شامل غیر ملکی کھلاڑیوں نے پاکستان میں فائنل میچ کھیلنے سے انکار کیوں کردیا؟ لک رائیٹ کا بیان افسوسناک تھا جو انہوں نے ٹویٹ میں کہا تھا ” میں اپنے بچے اور بیوی کو کرکٹ کی وجہ سے خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔”ان غیر ملکی کھلاڑیوں کے پاکستان نہ آنے کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ فائنل لاہور میں کروانے کا فیصلہ اچانک ہوا۔ اور اچانک کوئی کھلاڑی تیار نہیں ہوتا۔وہ ایک میچ کھیلنے کی خاطر یہ رسک یہ نہیں لے سکتا ۔اگر آپ نے جتنی سیکیورٹی فراہم کر کے فائنل میچ لاہور میں کروایا تھا کیا اتنی سیکیورٹی سے دوسرے میچز پاکستان میں نہیں ہو سکتے تھے؟ اگر پاکستان سپر لیگ کے تین یا چار میچز پاکستان میں خیروعافیت سے ہوتے تو اگلے میچز میں غیر ملکی کھلاڑی بغیر دو گنا معاوضہ لیتے پاکستان میں میچ کھیلنے کے لیے رضا مند ہو جاتے۔اس طرح ادھوری لیگ چھوڑ کر نہ جاتے۔ یک دم کوئی کھلاڑی تیار نہیں ہوتا۔پشاور زلمی کے کپتان سیمی بھی جاوید آفریدی اور شاہد آفرید ی کا وعدے نبھانے لاہور آئے جو انہوں نے اپنے بیان میں بھی کہا۔ چیئرمین چاہتے تو سارے میچز پاکستان میں ہو سکتے تھے۔جس کا اندازہ لاہور میں ہونے والے فائنل میچ سے لگایا جا سکتا ہے کہ کس قدر لوگوں میں جوش وولولہ ہے۔کرکٹ ایسا کھیل ہے جس سے ہماری پوری قوم محبت کرتی ہے۔کسی اور موقع پر متحد ہو یا نہ ہو لیکن کرکٹ پر ضرور متحد ہوتی ہے۔شائقین کی بڑی تعداد کی فائنل میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی کرکٹ سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن پی ایس ایل کا پورا ایڈیشن پاکستان میں کرواتے تو جنہوں نے پاکستان میں آنے سے انکار کیا تھا وہ بھی پاکستان میں آتے اور بے فکر ہو کر میچ کھیلتے ۔ایک میچ کروانے سے تو ملک میں کرکٹ بحال نہیں ہو سکتی۔ اس لیے چیئرمین کو چاہیے کہ اگلے ایڈیشن کے میچز پاکستان میں کروائیں جائیں اگر سارا ایڈیشن پاکستان میں ہوتا ہے اور چلے ہوئے کارتوس کی بجائے نئے پلیئرز کو موقع فراہم کیا جاتا ہے تو مجھے یقین ہے پاکستان سپر لیگ انڈین پریمیئر لیگ سے آگے نکل سکتا ہے۔