تحریر : سید عارف سعید بخاری ایک محاورہ ہے کہ ”جیسی روح ویسے فرشتے ”۔۔۔جو شاہد ہماری پاکستانی عوام و خواص پر صادق آتا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو بھول کر اپنا یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہم خود اپنی اصلاح یا” خود احتسابی” کی بجائے سارا الزام دوسروں پر تھوم دیتے ہیں ۔ ہم اپنی عادات اور شاہانہ مزاج پر نظر نہیں ڈالتے اور ہر وقت یہ ڈھنڈورا پیٹناہم سبھی نے معمول بنا لیا ہے کہ حکمران ہی تمام خرابیوں کی اصل جڑ ہیں ۔ گویا بحیثیت قوم ہماراتوکوئی قصور ہے ہی نہیں ۔۔؟ یوں وطن عزیزتباہی اور بربادی کی تصویر بنتا جا رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ہم اپنے کارہائے نمایاں پر شرمندہ بھی نہیں بلکہ ہم اپنی ہر خطا ، ہر غلطی پر یوںمسرور و شاداں ہیںکہ جیسے قومی بربادی پر ہم ہی ”نوبل انعام” کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے ۔۔؟ اور ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں تمغہ ء حسن کارکردگی سے نوازیں گی ۔ لیکن شاہد معاملہ ایسا نہیں ہوگا۔
سوال تو یہ ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان کیسا ہونا چاہئے ۔۔؟یہ مختصرسا موضوع اپنے اندر بہت سے سوالات رکھتا ہے ، گو کہ اس موضوع کو چند الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے لیکن شاہد ایسی بات ہماری قوم کو سمجھنے میں دشواری ہو ۔ 70سال قبل جب برصغیر کے مسلمانوں نے ”پاکستان ” کے نام سے علیحدہ وطن کے حصول میں کامیابی حاصل تو اُس وقت یہ آزادی ”دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر مانگی گئی تھی ۔ اور قرارداد مقاصد میں مختصر الفاظ میں دوقومی نظرئیے کو واضح طور پربیان بھی کر دیا گیا تھا ۔ پاکستان بن گیا مگر ہم لوگ اس کی نظریاتی اساس کو ہی بھول گئے ۔ہمارا طرز زندگی ہندو انہ کلچر کا نمونہ پیش کرنے لگا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم وطن عزیز کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے اور دنیا کو دکھا دیتے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کی ڈیمانڈ کیوں ۔۔؟ علامہ اقبال نے کس قسم کے پاکستان کا خواب دیکھا تھا ۔۔؟ مگر المیہ یہ ہے کہ کوّا چلا ہنس کی چال ۔۔اپنی بھی بھول گیا۔
Islam
ہم نے اپنے معاشرے سے اعلیٰ اسلامی و اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ، مسلمان ہمیشہ دنیا میں امن کے علمبردار رہے مگر ہم نے اسلام کے نام پر پوری دنیا میں اپنی جگ ہنسائی کا سامان کیا ، دنیا ہمیں تخریب کار، انتہاء پسند اور دہشت گرد سمجھنے لگی اور ہم اسی میں خوش رہنے لگے کہ دنیا ہم سے خوف محسوس کرنے لگی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے اب تک آنے والے حکمران یہود ونصاریٰ کے ایجنٹ بن کر ملکی سلامتی و استحکام سے کھلواڑ کرتے رہے مگر کسی ایک حکمران کو بھی شرم نہ آئی ۔ عالمی مالیاتی اداروں ،آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک اور دولت مشترکہ کے پروردہ قائدین نے اس غریب ملک کو ترقی و خوشحالی کی حقیقی منزل سے روشناس کرانے کی بجائے ہماری آنے والی نسلوں کو بھی ان اداروں کے پاس گروی رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ہمارے حکمران اسی دھرتی ماں سے دولت کماتے ہیں مگر یہاں سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ اسی پاک وطن سے کمائی یا لوٹی گئی حرام و حلال دولت سوٹئزر لینڈ ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کے بنکوں میںمنتقل کردیتے ہیں ۔ پاکستان کے پیسے پر پلنے والوں کو اپنا وطن ہی” غیر محفوظ” لگتا ہے اور جب بھی ان سے قومی دولت کی وطن واپسی کا تقاضازور پکڑنے لگتا ہے تو یہ سبھی سپر طاقتوں کے ہاں ”سیاسی پناہ” لے لیتے ہیں ۔۔انہیں پاکستان کے لوگوں سے” ڈر ”لگتا ہے مگر پاکستانی پیسہ انہیں دل وجاں سے زیادہ عزیز ہے کیونکہ اس طرح سے ناجائز دولت کمانے کا تصور دنیا میں کہیں موجود نہیں ۔ جو پاکستان کی پہچان بن چکا ہے۔
پاکستان کو قائد اعظم محمد علی جناح کے خوابوں کی تعبیر کے عین مطابق بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے حکمران اسلامی ریاست کے حقیقی تصور کو اپنانے کیلئے اپنا ایک واضح پروگرام شروع کریں ۔ اسلامی حکومت میں پیدا ہونے والے ہربچے کو خوراک ، تعلیم ، علاج اور روزگار فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کوئی ایساسسٹم موجود نہیں ۔ برطانیہ ، ناروے وغیرہ جیسے ممالک میں کہ جہاں اسلامی حکومت بھی نہیں ہے وہاں بھی یہ سسٹم سالہال سے رائج ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں کے شہریوں کو صرف اس سسٹم سے زندگی بھر کا ریلیف میسر آتا ہے ۔ کیونکہ انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر ہی لاحق نہیں ہوتی ۔
پاکستان میں لوگوں کو تنخواہیں اور مراعات کیلئے اگر ”خود کفالت ” کا نظام وضع کر لیا جائے تو اس کے ثمرات بھی عوام کی خوشحالی کی راہیں کھول سکتی ہیں ۔ ”خود کفالت ”سے میری مراد یہ ہے کہ ایک شخص ”کنوارا ” ہے مگر حکومت اسے لاکھوں روپے تنخو اہ اور ساتھ کروڑوں کی مراعات سے نوازتی ہے ۔جبکہ ایک شادی شدہ فرد جس کے زیر کفالت افراد کی تعداد 10سے12تک ہوتی ہے ۔ اس کو صرف 8سے 15ہزارروپے تنخواہ ملتی ہے ، اسی تنخواہ میں اُسے مکان کا کرایہ ، بچوں کی خوراک ، علاج معالجہ ، لباس ، تعلیم و دیگر ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں ۔ عام آدمی کو بخار کی گولی بھی اپنے پیسے سے خریدنا پڑتی ہے جبکہ اعلیٰ مراعات یافتہ طبقات کومعہ فیملی بیرون ممالک سے کروڑوں ڈالر تک علاج کرانے کی سہولت حاصل ہے ۔ یہ معاشرتی تفریق پاکستانی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔
Protection
حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ ساری قوم میں پھیلی ہوئی مایوسی اور اضطراب کو دور کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں ۔اور عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرے میں تعمیر وطن کو اپنی زندگی کا ماٹو بنا لیں ۔ ہر کام میں حکومت سے امیدیں وابستہ کرنا زندہ اور باشعور قوموں کا شیوہ نہیں ہوا کرتا ۔ ہمیں نفسا نفسی اور مادہ پرستی کی حالیہ روش کو ترک کرنا ہوگا ۔ ہماری پہچان پاکستان ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ اگر اس دھرتی کو ہم اپنے سے جدا کر دیں تو ہمارے پاس کیا رہ جاتا ہے ۔موجودہ حالات میں اسلام و ملک دشمن قوتیں ہماری ملکی سلامتی و استحکام کے درپے ہیں ،یقینا یہ قوتیں ہماری صفوں میں موجود غداروں کو اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال کر رہی ہیں ۔ آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں ۔ قیمتی انسان جانوں کا ضیاع معمول بن چکا ہے ۔بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو بھارتی سرپرستی حاصل ہے اور وہاں موجود چند غدار جن میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شامل ہیں ۔بھارت سرکار سے پیسے لے کر بلوچستان کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کو پروان چڑھانے میں دشمن کے مددگار بن چکے ہیں ۔آپریشن ضرب عضب کے دوران اور خودکش حملوں میں ہمارے ہزاروں جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔ ان حالات میں ہمیں چاہئے کہ ہم بے حسی ترک کرکے اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھیںتاکہ وطن عزیز کاامن تباہ کرنے والوں کا قلع قمع کیا جا سکے۔
سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں حصول پاکستان کیلئے دی گئی اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا احساس اور ادراک کرنا چاہئے کیونکہ یہ آزادی کسی نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ لاکھوں کروڑوں عصمتوں اور جانوں کی قربان کرنے کے بعد ہی یہ آزادی میسّر آئی ہے ۔اس لئے ہم سب کو اس کی قدر کرنا ہو گی ۔ جس دن ہم نے یہ عہد کرلیا کہ ہم نے تعمیر وطن کا فریضہ خود ادا کرنا ہے تو یقینا ہم اپنے اس پیارے وطن کو ترقی و خوشحالی کی اُس منزل سے روشناس کرانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے جس پر ہماری آئندہ نسلیں بھی ہماری ممنون و شکر گذار ہوں گی ۔اور ہم اپنے رب کے حضور بھی سرخروہوں گے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email: arifsaeedbukhari@gmail.com