پاکستان میں طالبان دھڑوں میں بٹنے سے اغوا کے واقعات میں اضافہ

Taliban

Taliban

کراچی (جیوڈیسک) طالبان کے مختلف دھڑوں میں بٹنے سے پاکستان میں اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ دہشت گرد اپنی سرگرمیوں کے لئے مجرمانہ انداز کارروائیوں کے ذریعے فنڈز اکھٹا کر رہے ہیں۔

کراچی اور اسلام آباد سمیت دیگر علاقوں میں ایسی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان میں بڑھتی گروہ بندی سے امیر تاجروں اور بااثر شخصیات کے اغوا میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستانی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق مختلف دھڑوں میں بٹی تحریک طالبان پاکستان گزشتہ دو سال سے اس طرح کے زیادہ جرائم کر رہی ہے۔ عسکریت پسند گروپ اس طرح کی کارروائیوں کے لئے زیادہ فعال ہیں۔

متاثرہ خاندان پولیس پر بد اعتمادی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ ہی درج نہیں کراتے بلکہ نجی طور پر اغوا کاروں سے مذاکرات کرکے تاوان اداکرتے ہیں۔ سیکورٹی حکام نے خبردار کیا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کے مضبوط ٹھکانوں کے خلاف فوجی آپریشن سے شہروں میں عسکریت پسندوں کی ایک نئی لہر آئی ہے اور اس کے نتیجے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کراچی عسکریت پسندوں کے لئے ایک اہم مالیاتی ذریعے میں تبدیل ہو چکا ہے۔

کراچی پولیس کے انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ نیاز کھوسو کا کہنا ہے کہ طالبان زیادہ تر شہر کے نسلی پشتون علاقوں کو نشانہ بنا تے ہیں عسکریت پسندوں کی قیادت میں زیادہ تر پشتون ہیں اور پشتون تاجر پشتون ڈرائیوروں، باورچیوں اور گارڈز کو رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے ستمبر میں کراچی میں سیکورٹی آپریشن اس امید سے شروع کیا کہ ملک کے مالیاتی مرکز اور اہم بندرگاہ میں امن و امان قائم کیا جاسکے لیکن پولیس کے مطابق آپریشن طالبان کے اغوا کی کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہاہے۔

کراچی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ فاروق اعوان کا کہنا ہے کہ یہ عناصر کنٹرول سے باہر ہیں۔ پنجاب پولیس افسر کا کہنا ہے کہ طالبان آمدنی کے ایک حصے کے بدلے اغوا کاروں کے گروہوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں ان کی پناہ گاہوں تک رسائی رکھتے ہیںکچھ کیسز میں عام جرائم پیشہ افراد مغوی افراد کو طالبان سے منسلک گروہوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں جو متاثرین کے خاندانوں سے بہت زیادہ تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

جنوری میں ایک ہائی پروفائل کیس میں طالبان سے منسلک ایک گروپ نے ملتان سے پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکرمعظم کالرو کواغوا کر لیا جسے تین ماہ تک کوہاٹ میں رکھا گیا، اس کیس کی تحقیق سے وابستہ دو پولیس حکام کے مطابق اس کے خاندان والوں کی طرف سے 50 لاکھ روپے (پانچ لاکھ ڈالر) کی ادائیگی کے بعد معظم کالروں کی رہائی ممکن ہو ئی۔تاوان کی اتنی ہی رقم دیگر مغوی کی رہائی میں طالبان کوتاوان میں ادا کی گئی۔طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ا س بات کی تردید کی کہ طالبان اغوا کار گروہوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام اپنے دشمنوں کے اغوا اور قتل کا جواز فراہم کرتا ہے ہم دوسرے دشمنوں کی رقم لے سکتے ہیں، لیکن ہم بے گناہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بناتے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کاتجارتی مرکز کراچی طویل عرصے سے اغوا کی وارداتوں کا مرکز ہے، لیکن طالبان اور اس کے دیگر دھڑوں کے ملوث ہونے سے ان جرائم میں اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔طالبان نے اغوا کی وارداتوں کا سلسلہ اسلام آبا د اور دیگر ان علاقوں تک بھی پھیلا دیا ہے جہا ں یہ جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔

پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 2013 میں 132 اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہوئی جب کہ 2012 میں یہ اعدادوشمار 160 رہے۔ لیکن پولیس فورس حکام کا کہنا ہے کہ درست تعداد موجود ہی نہیں۔ کئی ایسے اغوا کے واقعات ہوئے جو رپورٹ نہیں ہوئے کچھ رپورٹ ہوئے مگر انہیں رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد میں 2014 کے پہلے چھ میں پانچ اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے، 2013 کے اسی عرصے میںنو واقعات ہوئے۔

اسلام آباد کے ایک فیکٹری مالک جسے ستمبر 2013 میں اغوا کیا گیا اس کے خاندان نے تاوان دے کر ان کی رہائی ممکن بنائی اخبار کے مطابق انہوں نے پولیس کو رپورٹ نہیںکیا۔ انہوں نے واقعے کی تفصیلات پر بات چیت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ زیادہ تر متاثرین پولیس پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ان کو بتانے سے گریز کرتے ہیںوہ اغواکاروں سے نجی طور پر مذاکرات کر کے ادائیگی کر دیتے ہیں۔

اسلام آباد کے سینئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے پولیس کو بتا دیا تو اغوا کار ان کے پیاروں کے نقصان پہنچائیں گے۔