تحریر : عماد ظفر احسان اللہ احسان ایک ایسا نام جو پاکستان میں بسنے والوں کی سماعتوں میں کئی سال مسلسل ہتھوڑے کی مانند بجتا رہا. یہ شخص دہشت گردی کے ہر واقعے کی فخریہ انداز میں زمہ داری قبول کرنے والا تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کا ترجمان تھا. آرمی پبلک سکول کے معصوم بچے ہوں یا چارسدہ یونیورسٹی کے بے گناہ طالبعلم یا پھر وطن عزیز کے طول و ارض میں دہشت گردی کے واقعات میں جانیں گنوانے والے بے گناہ شہری ان کی اموات کی زمہ داری قبول کرنے کیلیے طالبان اور جماعت الاحرار کا چہرہ یہی شخص تھا.
اس شخص نے قریب دو ماہ قبل پاکستانی سیکیورٹی حکام سے ایک معاہدے کے تحت ہتھیار ڈالے اور اپنے آپ کو سیکیورٹی فورسز کے سپرد کر دیا.باخبر ذرائع کے مطابق احسان الہ احسان کا سیکیورٹی اداروں سے معاہدہ طے کروانے میں عصمت معاویہ کا کلیدی کردار تھا.اور معاہدے کے تحت احسان الہ احسان کو یہ گارنٹی دی گئی تھی کہ اس کے سرینڈر کرنے کے عوض نہ تو اس پر کسی قسم کا کوئی مقدمہ بنایا جائے گا اور نہ ہی اسے کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گابلکہ اس کو پاکستان میں زندگی بسر کرنے کیلئے سیکیورٹی اور ماہانہ اخراجات بھی فراہم کیئے جائیں گے.
گویا ایک طرح سے احسان الہ احسان کو معافی دے دی گئی. جس انداز سے اس دہشت گرد کو میڈیا پر پیش کر کے اس کے بارے میں یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ شخص اپنے جرائم پر نادم ہے اس لیئے اسے معاف کر دینا چائیے .اس کو دراصل سافٹ امیج بلڈنگ کی مہم کہا جاتا ہے . اس مہم کا مقصد ابلاغ کے تمام میسر ذرائع استعمال کر کے مطلوبہ فرد کے ان پہلووں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے جو اس کے سافٹ امیج کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرتے ہیں. مژاک کے طور پر احسان الہ احسان کا یہ کہنا کہ وہ شاعری اور ادب سے بھی دلچسپی رکھتا ہے.احمد فراز کو بھی پشتو میں ترجمہ کر چکا ہے.وہ اپنے باقی طالبانی ساتھیوں سے را سے تعاون لینے پر برہمی کا اظہار کرتا تھا یہ تمام بیانات دراصل اس کیلئے معاشرے میں ایک رحم کی سوچ پیدا کتنے کیلئے دلوائے اور نشر کروائے گیے. حالانکہ ایک ایسا دہشت گرد جو کہ تحریک طالبان اور جماعت الاحرار کے چہرے کے طور پر کام کرتا تھا اور جس کے ہاتھ ہزارہا معصوم بچوں ،نوجوانوں اور بزرگوں کے خون ناحق میں رنگے ہوئے ہیں ،اسے معاف کرنے کا اختیار سرکاری یا ریاستی اداروں کو نہیں بلکہ ان ہزاروں افراد کے ورثا کے پاس ہے جن کے پیارے اس شخص کی جماعت کی بے رحمانہ کاروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے. کیا آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین اس جانور نما انسان کو معاف کر سکتے ہیں؟ کیا چارسدہ یونیورسٹی میں شہید ہونے والے نوجوان طلبا کے والدین سے کسی نے پوچھا کہ اس درندے کو معافی دے دی جائے؟ وہ ہزارہا سپاہی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا لہو دیکر امن کے چراغ جلا گئے کیا ان کی بیواؤں یا بچوں سے کسی نے پوچھنے کی زحمت کی کہ اس شخص کو معاف کیا جائے یا نہیں؟ احسان الہ احسان اس ساری قوم کا مجرم ہے طالبان اور جماعت الاحرار کے پلیٹ فارم سے اس نے خوف و دہشت کے سائے ہمارے بچوں پر مسلط کیئے. نہ تو اس شخص نے کوئی معمولی سی چوری ڈکیتی کی ہے اور نہ ہی اس کا جرم معمولی نوعیت کا ہے.
ریاستیں باغیوں سے اکثر مذاکرات کرتی ہیں اور انہیں معاف بھی کر دیا کرتی ہیں لیکن دہشت گردوں سے مزاکرات نہیں ہوتے اور ایسے دہشت گرد جو چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے فرشتوں جیسے وجود کو بارود سے چھلنی کر کے لہولہان کر دیں ان سے مذاکرات نہیں ہوتے بلکہ انہیں عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے تا کہ آئیندہ کبھی اور کوئی ایسا فرد یا گروہ اس قسم کی سفاکانہ حرکات کا سوچنے بھی نہ پائے. احسان الہ احسان میڈیا پر نمودار ہوا تواس کا ہشاش بشاش چہرہ ساری روداد بیان کر رہا رھا کہ وہ دراصل کس ادارے کا مہمان ہے اور اس کی طمانیت بتا رہی تھی کہ اس کو مسقبل قریب میں معاویہ کی مانند کہیں سیکیورٹی حصار میں سرکاری وظیفے پر پلنے کیلئے چھوڑ دیا جائے گا. یعنی ستر ہزار پاکستانیوں کا قاتل میرے اور آپ کے دیئے گئے ٹیکس کی سرکاری آمدم سے ایک پر تعیش زندگی ہماری ہی سرزمین پر گزارے گا اور اس کا ناپاک وجود ہر لمحے اور ہر آن آرمی پبلک سکول کے بچوں سمیت کئی ناحق معصوموں کی کربناک موت کے دکھ کی اذیت یاد دلاتا رہے گا.
اثاثے پالنے والوں کو یہ اثاثہ مبارک ہو ممکن ہے عنقریب ہی اور بہت سے اثاثوں کو بھی کلین چٹ دے دی جائے اور اس وطن کے ہزارہا شہدا کے ورثا بے بسی سے صبر کے کڑوے گھونٹ پیتے دکھائی دیں . ممکن ہے ہم لوگ جو یوں بھی مرغیوں کی طرح ڈربے میں آنکھیں موند کر جینے کے عادی ہیں اس کہانی پر چند تحاریر چند ٹاک شوز یا چند سیمینارز کر کے یہ سب بھول جائیں. لیکن اس وطن میں دہشت گردوں کی کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے نہتے شہری اور بہادر سپاہوں کا خون یہ سوال پوچھتا رہے گا کہ جو دہشت گرد ہمارے سروں کو کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلتے تھے جو معصوم بچوں کو درندوں کی مانند موت کے گھاٹ اتار کر خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے کیا ان کو معافی دیتے وقت کسی “غیرت ” کسی “قومی وقار” کا خیال نہیں آیا. کیا ان سب شہدا کا خون اس قدر سستا تھا کہ ہم نے ان کی لاشوں پر احسان الہ احسان جیسے درندے کو معاف کر دیا. جو قوتیں وطن عزیز میں “سٹریٹیجیک اثاثے” پالتی ہیں وہ اپنے مستقبل کے اثاثوں یعنی ہمارے بچوں کو اپنا اثاثہ کس دن تصور کریں گی؟ اور کب اس حقیقت کو سمجھیں گی کہ وطن کا اصل “اثاثہ” آنے والی نسلیں ہوا کرتی ہیں اگر آنے والی نسلیں ان نام نہاد “سٹریٹیجیک اثاثوں” کے ہاتھوں یرغمال بن کر خوف و دہشت کی فضا میں پروان چڑھیں گی تو ہمارا مسقبل اندھیروں کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا. احسان الہ احسان اور اس کے ساتھی ہمارے آنے والی نسلوں کے شانوں پر اس ملک کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں رکھا جانے والا بوجھ ہیں.
جب بات اپنے بچوں کو بچانے کی ہو تو بوجھ سے پیچھا چھڑایا جاتا ہے نا کہ اس کے وزن تلے آنے والی نسلوں کو بھی دب کر بے یار و مددگار جینے یا مرنے کیلئے چھوڑا جاتا ہے. سٹریٹیجک اثاثوں پر انوسٹمنٹ کے بجائے اگر اپنے ملک کے بچوں کو علم و تحقیق سے روشنائی کرواتے ہوئے ان پر محنت کی جاتی تو آج ہم جدید دنیا سے اس قدر پیچھے نہ بستے. ہم لوگ اور ہم سے پہلے گزرنے والی نسلوں کو تو ان سٹریٹیجک اثاثوں کو پالنے کی خاطر ایہ حبس زدہ فضا میں گھٹ گھٹ کر جینے کا ماحول دیا گیا. لیکن کم سے کم ہمارے بچوں کو تو اب حقیقی مسقبل اور سٹریٹیجک اثاثہ سمجھ کر ایک پرامن اور پڑھے لکھے معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے. اب وقت آن پہنچا پے کہ احسان الہ احسان جیسے درندوں کو سٹریٹیجیک اثاثہ تصور کرنے کے بجائے انہیں تلف کیا جائے کیونکہ دوسری جانب سوال ہمارے آنے والی نسلوں اور ان شہید بچوں کا ہے جو اس جنگ میں ناحق مارے گئے. احسان الہ احسان کیسے درندے مسقبل کے ضامن ہیں یا سٹریٹیجیک اثاثے ہیں یا یا پھر ہمارے بچے، مقتدر قوتوں کو اب واضح فیصلہ لینا ہو گا.