تحریر : شیخ خالد ذاہد معلوم کرنے سے بھی یہ جاننا بہت مشکل ہوگا کہ ہمارے ملک میں سوچ بچار کرنے والوں کی کیا اہمیت اور افادیت ہے۔ لکیر کے فقیر ہمارے ملک میں خوب دھوم مچاتے ہیں اور آؤ بھگت کے اہل ٹھیرتے ہیں۔ صحیح معنوں میں سوچ بچار کرنے والے لوگوں کو ان چیزوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ مگر باقی دنیا ان سوچ بچار کرنے والوں کو سر آنکھوں پر بیٹھا کہ رکھتی ہے اور انکی تحقیق اور انکے کام کو انتہائی قدر اور اہمیت دی جاتی ہے۔ اخبارات اور دیگر رسائل سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ان جہاں دیدہ لوگوں کو “تھنک ٹینک” کہ نام سے جانا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا کام وقت سے پہلے وقت میں پوشیدہ معاملات کو جانچنا اور اربابِ اختیار کو آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ترقی کی بنیادی وجہ یہی لوگ ہیں اور یہی لوگ ترقی اور پسماندگی کا فرق ہیں۔ جنہوں نے ان افراد کو اہمیت دی اور انکے دئے ہوئے مشوروں پر عمل کیا وہ آج دنیا کے اہم امور چلا رہے ہیں۔ اگر کہا یہ جائے کہ یہ لوگ درحقیقت حکومت اور حکومتی اداروں کو راستہ دکھانے والے ہوتے ہیں۔
یہ “تھنک ٹینک” اپنی وسیع النظری کی بدولت ملک کو پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں اور ان سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے اس پر اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ وسائل کی دریافت میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ وقت میں چھپے ہوئے حالات سے نمٹنے کی تدبیریں اپنے حکمرانوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں میں غدار بھی ہوسکتے جو ملک کو تباہی اور بربادی سے بچانے کی بجائے اس میں دھکیل دیں۔ یہ اپنی حیثیت اور اختیارات کی بدولت ایسی مقام پر ہوتے ہیں کہ کوئی ان پر انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا اور نا ہی کوئی انکی مراعات روکنے کی گستاخی کرسکتا ہے۔
یہ لوگ بہت معتبر ہوتے ہیں۔ یقیناً ہر ملک اپنے “تھنک ٹینک” کی بدولت مستقبل کی پیشرفت مرتب کرتے ہونگے اور انکی اہمیت بھی ویسی ہی ہوتی ہوگی جیسی کے مندرجہ بالا سطور میں تحریر کی گئی ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہوگا جہاں “تھنک ٹینک” معلوم نہیں کیا سوچتے ہیں، یا پھر کرپشن ذدہ معاشرے میں رہنے والے کرپشن کی سوچ ہی رکھتے ہونگے اور حکمرانوں کے کرپشن کے نئے نئے طریقوں سے آگاہ کرتے ہونگے۔ یہاں خوشامدیوں کی دال جلدی گلتی ہے تو تھنک ٹینک بطور خوشامدی جانے جاتے ہیں۔ جبھی تو کرپشن میں ہم پاکستانی آگے سے آگے نکلتے جا رہے ہیں اور ان فہرستوں میں نوے فیصد وہ لوگ ہونگے جو اس ملک کی باگ دوڑ چلانے میں مصروف ہیں۔ دنیا میں سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرانا لوگ اپنا اعزاز سمجھتے ہیں ہم پاکستانی جس کے پاس کھانے کو کچھ نا ہو خواہش یہی کرتا ہے کہ مر جاؤں مگر کسی سرکاری ہسپتال کی زینت نا بنوں۔
Tank
موضوع پر واپس آتے ہیں، ہمارے تھنک ٹینک بنیادی طور پر امن کہ پیامبر ہیں۔ جو کسی سانحہ اور حادثے سے اس وقت تک آگاہی فراہم نہیں کرتے یا خدشہ ظاہر کرتے کیوں کہ کہیں لوگ پریشان نا ہوجائیں۔ یہ لوگوں کو وقت سے پہلے آگاہی کی بدولت ڈرانا نہیں چاہتے۔ تھوڑا سا تاریخی پس منظر پر نظر ڈالئے ہمیں دیکھائی دیتا ہے کہ کسی سانحہ حادثے یا دھماکہ کے بعد اخبارات پر جلی حروف میں لکھا دیکھائی دیتا ہے کہ اس کی اطلاع پہلے دے دی گئی تھی۔ اب چونکہ اطلاع مکمل نہیں ہوتی اسکی جڑ تک پہنچنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے تو وہ کیوں ایسا نہیں کرتے۔ پاکستانی تھنک ٹینک حادثات سے نمٹنے کی سہولیات پر زور کیوں نہیں دیتے، یہ کیوں سرکاری اداروں کو کارآمد بنانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے، میرٹ کا قتلِ عام رکے گا تو شائد ہماری ان دھماکوں سے جان چھوٹے، سوچنے کی بات ہے نا کیوں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اب کیوں عدالتوں کو وکیلوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان تمام امور پر ہمارے تھنک ٹینک کیا کررہے ہیں، کیوں ان کی وجوہات سے آگاہی فراہم نہیں کررہے۔ کہیں ہمارے تھنک ٹینک بھی تو کسی اور ملک کیلئے اپنی خدمات تو نہیں بیچ چکے۔ ہم نے سن رکھا ہے کہ پاکستان ایک گھر کی مانند ہے مگر اس گھر کے مکین اس گھر کو کرایہ کا سمجھتے آرہے ہیں جس کی ذمہ داری اس کے مکین لینے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات بھی تو کسی تھنک ٹینک کے دماغ کی پیدا وار ہوگی، جس نے جگہوں کا تعین کیا ہوگا، وقت کا تعین کیاہوگا اور مختلف چیزیں جو خوف کو زیادہ سے زیادہ عوام کے دلوں تک پہنچا سکے۔ ہم ہر دھماکہ کے بعد چوکنے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں، گاڑیوں کی تلاشی شروع ہوجاتی ہے، جگہ جگہ ناقے لگجاتے ہیں، اہم عمارتوں کے حفاظتی حصار بڑھا دئے جاتے اور اہم ترین شاہراؤں کو وقتی طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔ ایک طرف دھماکہ سے سب سے زیادہ نقصان جن انسانی جانوں کا ہوتا ہے وہ عوامی ہوتے ہیں اور ان اقدامات کی بدولت بھی سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا عوام کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ساری اہلیت اور کارگردگی اس بیچاری عوام کو دکھاتے نظر آتے ہیں۔ دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہوگا جہاں کے لوگ بغیر کسی وجہ کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے جانی اور مالی نقصان اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان نے دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی ہمیشہ بھرپور مذمت کی ہے مگر دہشت گردی ہمارا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ دوسروں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ہماری پاکستانی تھنک ٹینک سے گزارش ہے کہ خدارا ہمارے اداروں کو اور اربابِ اختیار کو اور سب سے بڑھ کر ہم عوام کو ان مشکلات سے نکالیں اوپر اللہ ہے اور نیچے آپ کو اللہ رب العزت نے صلاحیت فراہم کی ہے کہ آپ بہت دانشمندی اور قابلیت سے ان مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ معیشت پر سے تھوڑا سا دھیان ہٹائیں اور عوام کی فلاح کیلئے اور انکی زندگیوں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کیلئے شہروں، صوبوں اور وفاقی سطح پر تھنک ٹینک اکھٹا کریں اور ان کو حتمی ذمہ داری دیں کے یہ دہشت گردوں اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے جامع پروگرام مرتب دیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انکی معاونت سے اس لاحہ عمل کو عملی جامہ بنائیں۔ یقیناً تھنک ٹینک کی مدد کے بغیر ہم دہشت گردی اور گردوں سے نجات نہیں پا سکینگے اور ہماری آنے والی نسلیں ڈر اور خوف کی ماری اپنی زندگیاں بسر کرینگی۔