لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کا پاور شو ختم ہوگیا لیکن اس پر ردعمل تاحال شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں مینار پاکستان کے جلسے کو ” ام الااجتماعات ” ( مدر آف آل جلسہ) قرار دیا۔جس وقت عمران خان 29اپریل کے جلسے کو کو” ام الااجتماعات ” قرار دے رہے تھے بے ساختہ میرے ذہن میں افغانستان کے صوبے ننگر ہار کے ضلع ایچن کی پہاڑیوں میںگرائے جانے والا 21ہزار پاونڈوزنی بارودی مواد سے لیس جی بی یو43نامی ‘ مدر آف آل بومبز’ دوڑ گیا ۔حسن اتفاق ہے کہ مدر آف آل بومبز کے جواب میں44ہزار ٹن وزنی ”فادرآف آل بومبز’روس نے جب لانچ کیا تو دنیا ششدر رہ گئی ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس بات پر خوش نہیں ہونا چا ہیے کہ مدر آف آل جلسہ کے بعد” فادر آف آل جلسہ” ( ابو الاجتماعات )نہیں ہوسکتا ۔ شائد اس کے لئے زیادہ انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ 13 مئی کو ہی مینار پاکستان پر متحدہ مجلس عمل نے ملک گیر جلسے کا اعلان کیا ہے۔
یہ تو سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو ووٹ پڑے یا نہ پڑیں لیکن ان کے جلسے سیاسی طاقت کا پاور شو کا بڑامظاہرہ ہوتے ہیں ۔ ہمارا الیکٹرونک میڈیا جو’ ایم گروپ’ کی وجہ سے ” ٹیک ٹیکنالوجی ” پر پرائم ٹائم کوریج کرتا ہے ۔ اگر مذہبی جماعتیں بھی اپنا ‘ایم گروپ’ بنا کر ‘ ٹیک ٹیکنالوجی ‘ آئیڈیا اپنا لیں تو پاکستان کی عوام مولانا فضل الرحمن و سراج الحق کا خطاب کئی گھنٹوں تک براہ راست دیکھ سکتی ہیں ، ویسے بھی جب تک بانی ایم کیو ایم پر پابندی نہیں تھی ، الیکڑونک میڈیا کا جبر تمام ناظرین پر یکساں مسلط ہوا کرتا تھا ۔ اب وہ خاموش کرائے جا چکے ہیں اور اس خلا کو پورا کرنے کے لئے ہمارے میڈیا نے ترجیحات کو تبدیل کردیا ہے ۔ مینار پاکستان پر عمران خان اپنی سیاسی زندگی کی سب سے طویل من و عن نشری تقریر کرتے ہوئے اس جلسے کو ” ام الااجتماعات ” قرار دے چکے ہیں۔عمران خان نے جب اکتوبر2011میں اپنی سیاسی تاریخ کا بڑا جلسہ کیا تھا تو اُس کے بعد پاکستانی سیاست کا رخ تبدیل ہوا اور تحریک انصاف پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی ، اس کے بعد سیاسی پرندوں نے تحریک انصاف کا رخ کیا اور ایک بڑی تعداد عمران خان کے شانہ بشانہ ہوگئی ۔ یہاں سب سے قابل ذکر بات جو دیکھنے میں آئی اور جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ عمران خان کی جانب سے نظریاتی و مفاداتی رہنمائوں کا ذکر تھا ۔ عمران خان نے اپنی تاریخ کی طویل ترین تقریر میں جب اپنے دو دیرینہ نظریاتی ساتھیوں کی قربانیوں کا شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی سے” موازنہ ”کرایا تو سمجھنے والے اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہونگے کہ عمران خان نے یہ کیوں کہا کرتے تھے کہ ملک میں ہر طرف کرپشن ہے ، ایمان دار لوگ اور فرشتوں کو کہاں سے لائوں ؟۔
ماضی کی با نسبت عمران خان نے داخلی و خارجہ پالیسیوں کے متعلق اظہار نہیں کیا ۔ ان کی تمام تر زور اُن سماجی پراجیکٹ کی کامیابی کو دوہرانا رہی جس میں ہر پاکستانی ، ہر رنگ و نسل نے بلا امتیاز حصہ لیا تھا ۔ وہ کسی سیاسی جماعت کی مہم نہیں تھی ۔ بلکہ وہ ایک ایسی سوچ کی مہم تھی جس میں صرف ایک اینکر پرسن نے ہی نہیں بلکہ اِس وقت کے مخالف نجی چینل نے بھی اُس وقت بھرپور ساتھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ اس منصوبے کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکتی تھی اگر اِس وقت کے شدید ترین مخالف اُس وقت ان کو زمین عطیہ نہ کرتے ۔ انہیں اپنی تمام تر مخالفت میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہیے تھا کہ شوکت خانم میموریل ہسپتال کے لئے 1990میں زمین کا عطیہ کس نے دیا تھا اور پشاور میں بھی کینسر ہسپتال کے لئے زمین کس نے فراہم کی ۔ بہرحال سیاسی مخالفت میں ایسا ہوتا ہے کہ تعریف کم اور تنقید زیادہ کی جاتی ہے۔ عمران خان بار بار ورلڈ کپ کو اپنی سیاسی زندگی میں لے آتے ہیں ۔ گو کہ وہ صرف پاکستان کی نمائندگی کررہے تھے لیکن ان پراُس وقت کراچی سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز بلے باز کے ساتھ لسانی بنیادوں پر ناروا سلوک رکھنے پر سخت تنقید کی جاتی تھی ۔ جب اس مایہ ناز بلے باز نے سیمی فائنل اور فائنل میں اپنی کارکردگی دکھائی تو کرکٹ فتوحات میں اُن کا جلسے میں اَب ذکر نہ کرنا بھی عجیب معلوم ہوتا ہے۔
عمران خان کے گیارہ نکات پر کوئی بحث اس لئے نہیں کیونکہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کا منشور اٹھا کر دیکھ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے اِس جماعت کے برسر اقتدار آتے ہی پاکستان کی قسمت بدل جائے گی ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے منشور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اس لئے ان نکات کو زیر بحث اُس وقت ہی لایا جا سکتا ہے جب عمران خان وزرات اعظمیٰ میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ آئیں ، چاروں صوبوں میں ان کی جماعت کی حکومت ہو اور ایوان بالا و صدر مملکت کے ساتھ ملکر اپنے گیارہ نکات پر عمل درآمد کریں۔اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو کئی اختیارات منتقل ہوچکے ہیں۔ آئینی تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ تمام صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہو۔ چاروں صوبوں اور وفاق میں آج تک کسی ایک جماعت کی حکومت نہیں رہی ہے اس لئے نیا پاکستان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ عمران خان چاروں صوبوں اور وفاق میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ آئیں ۔ اگر جھرلوحکومت کے ساتھ آتے ہیں تو یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ پی ٹی آئی کچھ بھی نہیں بدل پائے گی ۔ خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا میں ان کی طرز حکمرانی پر کئی سوالیہ نشانات اٹھ چکے ہیں اور خاص کر جب ان کی جماعت میں 20ایسے اراکین تھے جنھوں نے اپنے ضمیر کے خلاف سینیٹ میں ووٹ دیئے۔ تو کوئی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ انہیں اب بھی صرف فرشتے ہیں ملیںاس لئے ان کے گیارہ نکات کی تکمیل اِس وقت سہانا خواب ہی ہے جیسے وہ22برس سے دُوہرا رہے ہیں۔
اگر29اپریل کے دن کراچی میں 44برس بعد پیپلز پارٹی کے لیاقت آباد کے جلسے کو تاریخی نہ کہا جائے تو یہ یقیناََ بے انصافی ہوگی ۔ بلا شبہ44 برس بعد پی پی پی کا کراچی کے اُس علاقے میں جلسہ منعقد کرنا تاریخی قرار پاتا ہے جہاں لسانی جماعت کی مرضی کے بغیر کوئی پرندہ بھی پَر نہیں مار سکتا تھا۔ ہم یہاں کسی بھی سیاسی جماعت کے شرکا کا تعین و تقابل نہیں کرنا چاہتے لیکن اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو عار نہیں ہوگا کہ اگر 44برس بعد لیاقت آباد جیسے علاقے میں پی پی پی (جو دس برس سے سندھ کی بلاشرکت غیرے حکمراں جماعت ہے) جلسہ کرنے کا حوصلہ کرلیتی ہے تو اس کا مکمل کریڈٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے۔ کراچی میں امن کے پیچھے وردی ہے۔ اس سے اہل کراچی کا ایک ایک فرد انکار نہیں کرسکتا ۔ نواز لیگ ہو یا پی پی پی ،دونوں جماعتیں کراچی میں امن کا کریڈٹ اپنے نام کرنا چاہتی ہیں ۔ لیکن عوام جانتی ہے کہ جب کراچی آپریشن شروع کیا جارہا تھا تو کراچی کی تمام اسٹیک ہولڈرز جماعتوں نے قانون نافذ کرنے والوں کو مکمل مینڈیٹ دیا کہ سیاسی دبائو کے بغیر جرائم پیشہ افراد کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کریں ان چاروں مراحل میں سیاسی جماعتیں مداخلت نہیں کریں گی۔
پہلے مرحلے میں نچلی سطح پر سیاسی چھتریوں میں چھپے جرائم پیشہ کے خلاف کاروائیاں ، دوسرے مرحلے میں درمیانے اور تیسرے مرحلے میں مخفی سہولت کار اور چوتھے مرحلے میں اہم ذمے دار و رہنمائوں کے خلاف منطقی آپریشن نے کراچی کو چار عشروں بعد امن کا سایہ فراہم کیا۔ صوبائی حکومت جو کراچی میں اپنی مرضی سے کئی ایک جھنڈا نہیں لگا سکتی تھی ۔ اپنے گڑھ لیاری نہیں جا سکتی تھی آج وہ اس قابل ہوئی کہ لیاقت آباد میں اپنے چیئرمین سے خطاب کرانے میں کامیاب ہوئی ۔ ایم کیو ایم کے چاروں گروپوں کو اب شدت سے احساس ہوچکا ہے کہ بات سینیٹ یا سربراہی کی نہیں رہی بلکہ قلعے میں دراڑ ڈال دی گئی ۔ ایم کیو ایم 33 برس اقتدار میں رہ چکی ہے ۔ دونوں وفاقی سیاسی جماعتوں و مشرف حکومت کی ہم پیالہ ہم نوالہ رہ چکی ہے ۔ سینیٹ انتخابات سے لیکر حالیہ پریس کانفرنسوں تک ، گھر کے جھگڑے ہی نہیں سلجھا پا رہے ۔ ایسے وقت میں اگر پی پی پی نے لیاقت آباد میں جلسہ کردیا تو کون سے قیامت ڈھا دی ۔آپ جا کر لیاری میں جلسہ کردو ۔ کس نے روکا ہے ۔ اگر پی پی پی لیاری میں جلسہ نہیں کرسکتی تو آپ کردو۔ لیاقت آباد والوں کو نہ بتائو کہ پی پی پی نے کیا کیا ہے ، ہمت پکڑیں اور لیاری جائیں ، پی پی پی کے گڑھ جائیں وہاں جاکر بتائیں کہ پی پی پی نے کراچی میں کیا کیا اور 33برسوں میں ایم کیو ایم نے کیا کیا ۔جواب دیں عوام سننا چاہتی ہے۔ایم کیو ایم کے چاروں دھڑوں کو مکمل آزادی ہے کہ وہ شکوہ و جواب شکوہ کریں لیکن اہل کراچی اب کسی بھی لسانی سیاست کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔