تحریر : انجینئر افتخار چودھری پاکستان تحریک انصاف کے جناب جہانگیر خان ترین جو عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی کی نشست سے محروم ہو گئے تھے ان کی خالی کردہ نشست پر ان کے جواں سالہ صاحبزادے الیکشن لڑ رہے ہیں۔اللہ تعالی انہیں کامیابی نصیب کرے آمین۔علی خان ترین اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اچھے تربیت یافتہ بھی ہیں وہ کیا خوب کہا ہے بیٹا اور گھوڑا باپ پے بہتا نہیں تو تھوڑا۔یار لوگوں نے انگلیاں تو بہت اٹھائیں کہ کہ یہ موروثی سیاست ہے۔
جب تحقیق کی تو پتہ چلا یہ ہوائی بھی کسی دشمن نے اڑائی تھی۔موروثیت اگر باپ کی لیگیسی کو لے کر چلے تو اسے مثبت کہا جا سکتا ہے۔مجھے اپنے بیٹے نوید افتخار پر فخر ہے کہ اس نے بڑے بڑے جغادریوں کے درمیان جگہ بنائی ہے۔اور علی ترین کیوں نہیں ۔جو شخص آنکھ کھولتے ہی ایک ایسے گھر میں پیدا ہو جہاں لوگ غرض و غائت کے لئے آتے ہوں ان کی داد رسی کی جاتی ہو تو کوئی وجہ نہیں اولاد اسی اچھی چیز کو لے کر آگے بڑے۔میں جہانگیر ترین تو نہیں ہوں مگر ایک کارکن کی حیثیت پی ٹی آئی میں کم نہیں ہوتی اسی طرح یہ نوجوان بھی قبیلے کا تارا ثابت ہو گا۔
این اے ١٥٤ لودھراں کے لوگ پہلے بھی مسلم لیگ نواز کے ایک کڑیل کی کمر توڑ چکے ہیں انہیں ایک اور موقع مل رہا ہے کہ اس بار جہانگیر ترین کے بیٹے کو قومی اسمبلی میں بھیج رہے ہیں۔آنے والے وقت میں جب قومی اسمبلی میں نوجوان موجود ہوں گے اس میں علی ترین بھی ہوں گے۔میری دلی دعا ہے کہ سب لوگ انہیں ووٹ دیں۔
یقین کیجئے میری دلی خواہش تھی اور میں نے جہانگیر ترین خان سے وعدہ بھی کیا تھا کہ میں آئوں گا۔لیکن فیملی میں کچھ ایسی مصروفیات آڑے آ گئیں کہ پہنچ نہیں سکا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ علی ترین بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں۔ان کی کامیابی سے مخالفین کے منفی پراپوگنڈے کے بادل بھی چھٹیں گے اور ہمیں ایک نوجوان کو اسلام آباد میں اپنے جوہر دکھانے کا بھی موقع ملے گا۔