پاکستان تحریکِ انصاف کی عوامی رابطہ مہم میں عوام کا جوش و خروش دیدنی ہے جو اس کی مقبولیت اور پذیرائی میں دن بدن اضافہ کرتا جا رہا ہے جس کا واضح ثبوت حال ہی میں لیا گیا وہ سروے ہے جس میں تحریکِ انصاف ٣٣ فیصد مقبولیت کے ساتھ سے سب سے آگے ہے۔ بہا و لپور ،سیا لکوٹ اور فیصل آباد کے جلسوں میں عوام نے جسطرح بھر پور شرکت کی ہے اس نے عمران خان کو نئے حو صلے عطا کئے جن سے متاثر ہو کر انھوں نے ١٤ اگست کو لانگ مارچ کااعلان کر دیا ہے۔ بہا ولپور کی سخت گرمی میں کئی کئی گھنٹوں تک جلسہ گا ہ میں رہنا کوئی معمولی بات نہیںتھی لیکن عوام نے پنے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کیلئے اس شدید گرمی کو بھی برداشت کر لیا ہے۔
وہ جوق در جوق جلسہ گاہ پہنچ کر اپنے رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ انھیں نیا پا کستان چائیے۔ پاکستان کے وہ محروم طبقات جن کیلئے پارلیمنٹ کو شجرِ ممنوعہ قرار دیا جا چکا ہے اور جھنیں صرف نعرہ زنی کا کردار سونپا گیا ہوا ہے وہ پارلیمنٹ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اس تک پہنچنے کی جدو جہد بھی کر رہے ہیں۔ ان کی تحریکِ انصاف کے جلسوں میں شرکت اسی جانب پیشقدمی کا عندیہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے متوسط طبقے کو یہ ا حساس دلایا ہے کہ وہ بھی اقتدار کی راہداریوں تک پہنچ سکتے ہیں لہذا وہ عمران خان کی صور ت میں ایک ایسے راہنما کو دیکھ رہے ہیں جو واقعی موجود کرپٹ نظام کو بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔١١ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی عمران خان نے نوجوانوں کو خوش آمدید کہا تھا اور انھیں خاص تناسب سے ٹکٹیں تقسیم کی تھیں اور شائد یہی وجہ ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ تحر یکِ انصاف کا ہراول دستہ بنا ہوا ہے۔دھاندلی اگر نوجوانوں کے ارمانوں کا خون نہ کرتی تو موجودہ پارلیمنٹ میں نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی جو تبدیلی کے احساس کو قوی کرتی لیکن ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا اور نوجوان پارلیمنٹ تک پہنچنے سے محروم رہے اور دھاندلی کی وجہ سے نظام میں تبدیلی کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔
کرپٹ نظام اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ نا فظ العمل ہے جس کا نقصان پورے پاکستان کو اٹھا نا پڑ رہا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن نے ہمارے معاشرے کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے جس سے سارا قانونی اور اخلاقی ڈھانچہ زمین بوس ہو چکا ہے۔جس کے پاس دولت ہے وہ ا نصا ف خرید لیتا ہے او ر جوکوئی غریب اوربے آسرا ہے اسے دھر لیا جاتا ہے اور قانون کا اس پر اطلاق کر کے قانون کی حکمرانی کا شور مچا دیا جا تا ہے۔عدالتیں ،تھانے،حکومتی ادارے اور قانون نافظ کرنے والے ادارے بکتے ہیں اور پھر جسطرح کا انصاف ہورہا ہے وہ بھی ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک بے اعتدالی ہے جو ہر جگہ پائی جا رہی ہے اور اس میں سدھار کے آثار نظر نہیں آرہے۔
عمران خان اسی بے اعتدالی کے خلاف سینہ سپر ہیں لیکن حالات ان کیلئے اتنے سازگار نہیں ہیں کیونکہ سٹیٹسکو کی حامی طاقتیں ایک جگہ اکٹھی ہو گئی ہیں اور اس بوسیدہ نظام کو سہارا دئے ہوئے ہیں کیونکہ اسی میں ان کی بقا مضمر ہے۔سب سے زیادہ حیرانگی پی پی پی کے کردار پر ہے جو جمہوری جدو جہد کی ایک علامت تصور کی جا تی ہے۔وہ سٹیٹسکو کو بچانے کی خا طر مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے۔ایک زما نہ تھا کہ دوسری جماعتیں پی پی پی کی بی ٹیم بنا کرتی تھیں لیکن اب وقت یہ آگیاہے کہ مسلم لیگ کے دفاع میں پی پی پی کے قائدین اپنا زرورِ بیان صرف کر رہے ہیںیہ جانتے بوجھتے کہ مسلم لیگ (ن) محروم طبقات کے مفادات کی قاتل ہے۔
اسے تو سرمایہ داروں کے مفادات عزیز ہیں کیونکہ وہ سرمایہ داروں کی جماعت ہے جبکہ پی پی پی کا خمیر تو محروم طبقات کے حقوق کی خاطر نعرہ زن ہونے اور ان کی خاطر سینہ سپر ہونے سے اٹھا ہے لہذا مسلم لیگ(ن) اور اس میں یکجائی کا تصور ناممکن ہے لیکن ایسا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے پی پی پی ایک غیر موثر سیاسی قوت بن کر رہ گئی ہے۔
پنجاب میں حالیہ ہونے والے سارے انتخا بات میں پی پی پی کا کہیں بھی کوئی نام و نشان نہیں مل رہا۔تحریکِ انصا ف اور مسلم لیگ (ن) ہی ایک دوسرے کی حریف بنی ہوئی ہیں۔سکے بند جیالے اس بات کو ترس گئے ہیں کہ کسی ضمنی انتخاب میں پی پی پی بھی میدان میں اترے اوروہ اپنے ہونے کا ثبوت دیں لیکن پی پی پی کو اتنا کمزور کر دیا گیاہے کہ وہ کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں رہی۔٢٠١٣ کے ا نتخا بات نے اس کے وجود پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس سے وہ جان کنی کے عالم میں ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ پارٹی قیادت اسے تسلیم کرنے اور اس میں بہتری کے امکانات تلاش کرنے کیلئے تیار نہیں۔۔
Imran Khan
یہ سچ ہے کہ عمران خان ایک ضدی اور انا پرست انسان ہیں اور اپنی ھٹ دھرمی میں کسی کی بھی نہیں سنتے۔انھوں نے کرکٹ کے معاملات کو جس انداز میں چلایا تھا وہ سب کیلئے ایک مثا ل کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس زمانے میں بھی ا مپا ئرنگ میں بڑے گھپلے ہوتے تھے اور ہر ٹیم ایمائرنگ سے شاکی رہتی تھی کیونکہ امپائر جانبداری کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے۔ مجھے پاکستان ٹیم کا بھارت کا وہ دورہ اب بھی یاد ہے جس میں سنیل گواسکر کئی دفعہ اوٹ ہو چکا تھا لیکن امپا ئر اسے آئوٹ نہیں دیتے تھے ۔اس غنڈہ گردی کے خلاف عمران خان نے غیر جانبدارانہ امپا ئرنگ کی مہم کاغاز کیا اور آج امپا ئرنگ ہر قسم کے دبائو اور جانبداری سے آزاد ہو چکی ہے۔
لہذا ہار نے والے اپنی ہار کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں جبکہ جیتنے والے اپنی جیت پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں کیونکہ ان کی جیت ان کی اپنی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے۔پاکستان میں الیکشن کمیشن کی جانبداریوں، چال بازیو ں اور حرام زدگیوں سے پوری قوم واقف ہے کہ وہ اپنی خبا ثت کا مظاہرہ کرکے انصاف کا خون کرتاہے ۔الیکشن کمیشن اپنے آقائوں کے اشاروں پر وہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو انھیں سوٹ کرتا ہے۔ آقائوں کی جیت ہی ان کا مطمعِ نظر ہوتی ہے اس لئے نتائج کو ان کی خو شنو وی کے مطابق ہی تیار کیا جاتاہے۔وقت آگیا ہے کہ شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو با اختیار بنایا جائے تا کہ دھا ند لیوں کا موجودہ کلچر ختم ہو سکے۔موجودہ حکومت اپنی مرضی کے نتائج حا صل کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کو جوں کا توں برقرار رکھنا چاہتی ہے تا کہ اس کی دوکانداری چلتی رہے۔
وہ قتدار کی منزل سے دور نہ ہو سکے۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ تاریخ ہمیشہ آگے کی جانب سفر کرتی ہے لہذا موجودہ کرپٹ نظام کا بدلا جانا ضروری ہے۔کرکٹ میں بھی غیر جانبدار انہ امپائرز کو کوئی بھی ماننے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن وہ معرکہ بھی عمران خان نے سر کیا تھا اور الیکشن کمیشن کا معاملہ بھی اسی طرح نمٹا یا جائیگا کیونکہ اس کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ہماے پڑوسی ملک بھارت میں چند ماہ قبل انتخابی نتائج کا اعلان ہوا ہے جھنیں ساری سیاسی جماعتوں نے کھلے دل کے ساتھ تسلیم کیا ۔ ان انتخابات نے مکمل ہونے میں چالیس دن کا وقت لیا لیکن کسی ایک جماعت نے بھی دھاندلی کی شکائت نہیں کی کیونکہ ان کے ہاں الیکشن کمیشن بالکل آزاد اور خود مختار ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے ٢٠١٣ کے انتخا بات میں ہر جماعت نے دھاندلیوں کی شکائت کی ہے لیکن ا لیکشن کمیشن کسی جماعت کی فریاد سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔جعلی مینڈیٹ میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ کسی کو انصاف نہیں دیا جاتا۔میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اگر تحریکِ انصاف چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مطالبہ کر رہی ہے تو حکومت اسے ماننے کیلئے کیوں تیار نہیں ہے ؟ اس سے تو لا محا لہ یہی نتیجہ ا خذ کیا جا سکتا ہے کہ ان چار حلقوں میں دھاندلیوں کے ایسے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے ہیں جس سے حکومت خوف کا شکار ہے لہذا اس مسئلے کو ہر حال میں دبانا چاہتی ہے۔اسے خدشہ ہے کہ اس تصدیق کے نتیجے میں سارا انتخابی نظام ہی زمین بوس ہو جائیگا۔
انتخا بات کی کریڈ یبیلیٹی بالکل ختم ہو جائے گی لہذا وہ تصدیق والے معاملے کی جانب آنے کیلئے تیار نہیں ہے۔یہ معاملہ اسی طرح سے گھسیٹا جاتا رہیگا تا آنکہ کوئی غیر مرئی ہاتھ اس سارے کھیل کا خاتمہ کر دے۔مسلم لیگ (ن ) کو غیر مرئی ہاتھ سے حکومت کی سبکدوشی تو منظور ہو سکتی ہے لیکن دھاندلی کے تحت اپنی جیت سے ہاتھ نہیں دھوناچاہتی کیونک اس طرح وہ مستقبل کی سیاست میں بے دخل ہو جائیگی بالکل ویسے ہی جیسے پی پی پی آج کل بے دخل ہو چکی ہوئی ہے۔