واشنگٹن (جیوڈیسک) صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کو درپیش شدید عالمی خطرات کی نشاندہی سے متعلق اپنی حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے، جس میں قومی ترجیحات کا ایک واضح خاکہ پیش کیا گیا ہے۔
اپنے خطاب میں پیر کے روز ٹرمپ نے حکمتِ عملی کی حامل اس دستاویز کی رونمائی کی، ایسے میں جب کہ اُن کی انتظامیہ کو عہدہ سنبھالے تقریباً 11 ماہ گزرے ہیں۔ پُرتشدد انتہا پسندی اور اسلامی قدامت پسندی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ سماجی میڈیا کے استعمال پر ’’خصوصی نظر رکھی جائے گی‘‘۔
جنوبی ایشیا کا ذکر کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ توقع کرتا ہے کہ پاکستان اُن دہشت گردوں کا قلع قمع کرے ’’جو اس کے علاقے میں سرگرم ہیں‘‘۔ بقول اُن کے، ’’اپنی کوششیں بڑھا کر وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دیرپہ پارٹنرشپ کا خواہشمند ہے؛ اور چاہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف ’’فیصلہ کُن کردار ادا کرے‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’ہر سال جنگجوؤں سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان کو بڑی رقوم فراہم کی جاتی ہیں‘‘۔
داعش کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ عراق اور شام میں داعش کو ’’شکست دی گئی ہے اور اُس کے زیر قبضہ علاقوں کو مکمل طور پر واگزار کرا لیا گیا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ دنیا میں ہر جگہ باقی ماندہ داعش کے شدت پسندوں کا تعاقب کیا جائے گا۔
ایران کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں تک رسائی نہیں دی جائے گی؛ اور یہ کہ پاسدارانِ انقلاب پر پابندی لگادی گئی ہے۔
’سب سے پہلے امریکہ‘ کے اپنے نعرے کے حوالے سے صدر ٹرمپ نے کہا کہ خوش حالی کے حصول کے لیے قومی سلامتی کو داؤ پہ نہیں لگایا جا سکتا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’جو قوم معاشی سکیورٹی کے لیے قومی سکیورٹی کو قربان کرتی ہے، وہ بالآخر دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے‘‘۔
اُنھوں نے ملکی زیریں ڈھانچے کی از سرِ نو تعمیر کو ترجیح دینے کا اعلان کیا۔
انتظامیہ کے اعلیٰ اہل کاروں کے مطابق، امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی قومی سلامتی حکمتِ عملی کے ذریعے ملک کو ایک ’’واضح اور قابل ِ مواخذہ لائحہٴ عمل‘‘ میسر آئے گا، جس سے انتہائی خطرناک اور تواتر کی بنیاد پر درپیش خدشات کا انسداد ممکن ہوگا۔
انتظامیہ کے سینئر حکام نے کہا ہے کہ ماضی کی حکمتِ عملیوں کے برعکس، اس دستاویز میں ملک کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کا ’’واضح احاطہ پیش کیا گیا ہے‘‘، جس میں امریکی مفادات کی ترجیح طے کی گئی ہے، جو ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے صدر کی پالیسی کی غماز ہے۔