کوئٹہ کی خون سے رنگین گلیاں ہوں یا کراچی کی لہو لہان سڑکیں، فِرقہ وارانہ جنگ ، ٹارگٹ کِلنگ ، خودکُش دھماکے یا پھر ملک کے دوسرے شہروں میںہونیوالا قتلِ عام۔ جب میں اپنے ملک کے بارے میں سوچتا ہوں تو میرا دِل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیا یہ وہی اِسلامی جمہوریہ ِ پاکستان ہے کہ جِس کا خواب اِقبال نے دیکھا تھا؟؟ جس کے بارے میں قائدِاعظم نے کہا تھا کہ دُنیا کے کِسی بھی کونے میںرہنے والا وہ شخص جو کہ کلمہ گو ہے وہ پاکستانی ہے۔
ذرا سوچیے ! ہم کِس سمت جا رہے ہیں؟؟؟؟ کون مر رہا ہے؟؟؟؟ کون مار رہا ہے؟؟؟؟ ملک میں دن بدن امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال۔ ملک دشمن طاقتیں کیسے حملہ کر لیتی ہیں؟؟؟؟ کون سے ایسے پسِ پردہ عناصر ہیں جو ایسے لوگوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں؟؟؟ اگر کوئی تعاون نہیں کر رہا تو پِھر کیسے یہ لوگ اِتنی دیدہ دلیری سے کیسے کاروائیاں کر لیتے ہیں؟؟؟ آخر کون لوگ ہیں جو ہمارے ملک کا امن وامان تباہ کرنا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟ قانون کو سرِعام پیروں تلے روندا جا رہا ہے ۔
اسلام کے نام پرلوگوں کو ورغلایا جا ررہا ہے اور لوگوں کو (emotional blackmail)کیا جا رہا ہے۔ ایک فرقے کے لوگ اپنے مخالف فِرقے کے لوگوں کا قتل کرنا سب سے عظیم کام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اِسلام میں تو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اُن کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ لیکن یہاںپر دوسرے مذہب تو درکنار، اپنے ہی مذہب کے دوسرے فِرقے کے لوگوں کو مارنے کو جہاد سمجھا جاتا ہے۔ پتہ نہیں ہماری قوم کو کِس کی نظر لگ گئی ہے؟؟ ہماری قوم کب ایک ہوگی۔
Agencies against
نام نہاد کلعدم تنظیمیں پابندی کے باوجود بڑی دیدہ دلیری سے اپنی کاروائیاں کرلیتی ہیں اور پھر بڑے فخر سے ذمہ داری بھی قبول کر لیتی ہیں۔ اور پھر ہم لوگ بھی بڑی آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کام ایجنسیاں کروا رہی ہیں ۔ بجا ئے اِس کے کہ ہم اُن تمام لوگوں کے خلاف آواز بلند کریں، ہم ان کو اِسلام کے سِپاہی کہتے ہیں اور اپنی ہی فوج کو غلط کہتے ہیں۔ ایک دہشتگرد کبھی بھی اِسلام کے لیے کام نہیں کرتا وہ صِرف اور صِرف اپنے مقصد کے لیے سب کچھ کرتا ہے۔
اصل میں ہمارا ضمیر مر گیا ہے ،ہم نے سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے۔ ہم نے پاکستانیت کو چھوڑ کر اپنی برادری ، اپنے فرقے اور اپنی پارٹی کو زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ نفرتوں کی جلتی ہوئی اِس آگ کے دور میں انجمن طلباء اِسلام تمام طلباء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہی ہے کہ جہاں نفرت کے بجائے محبت، دُشمنی کے بجائے دوستی اور امن سے اِس معاشرے کو خوبصورت بنانے کے لیے اے ٹی آئی کے کارکنان دِن رات سرگرمِ عمل ہیں، اے ٹی آئی کا نصب العین طلبا ء کے دِلوں میں صیحح اِلامی روح بیدار کرنا ہے جو کہ عشقِ مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کی شمع فیروزاں کیے بغیر ناممکن ہے۔
ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے سے میرا تواِس بات پر ایمان ہے کہ جو شخص پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے وہ دراصل اسلام کے ساتھ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے ۔اِن تمام تر حالات کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیںہے بلکہ ہر وہ شخص ہے کہ جو معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو جنم دیتا ہے۔ اِن حالات کی ذمہ داری اُس مخصوص سوچ پر عائد ہوتی ہے کہ جو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لئے یہ تمام کام کرتی ہے۔
اُن لوگوں پر بھی کہ جو لوگ ممبروں پہ بیٹھ کر لوگوں کو اِسلام کا درس دینے کے بجائے ایک دوسرے خلاف نفرت کرنا سِکھا رہے ہیں۔جِس بندے کو کلمہِ طیبہ کا صیحح مفہوم بھی نہیں آتا وہ بھی دوسرے فِرقے کے خلاف ایسے کُفر کا فتوا دیگا کہ جیسے اِسلام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار یہی ہے۔
Association Students
اِن تمام نفرتوں کے دور میں ایک طالبِ علم ہونے کے ناطے سے ہم پر یہ ذِمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم تمام برائیوں کے خلاف اِعلانِ جنگ کریں اور نفرتوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کرختم کریں اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، محبتِ اِنسانیت،اِحترامِ انسانیت اور امن و بھائی چارے کا بیج بوئیں۔ تا کہ ہماری آنیوالی نسلیں اِن تمام بُرائیوں سے پاک اور پیار و محبت والے معاشرے میں اپنی زندگیاں گزار سکیں۔ ہم سب کو اِ س بات کا عہد کرنا ہوگا کہ کبھی بھی اِسلام کے ساتھ ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ اور اپنے پیارے ملک پاکستان کے ساتھ بے وفائی نہیں کریں گے۔ اور اِس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ۔ خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے