تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ پاکستان میں بدلتی صورتحال پر عالمی میڈیا پرجاری تبصروں میں خصوصی طور میں سکیورٹی صورتحال پرسوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ مبصرین کا کہناہے کہ وزیراعظم نے قومی ایکشن پلان پر اتفاق رائے کے وقت واشگاف الفاظ میں ہر قسم کے انتہا پسند اور فرقہ واریت پھیلانے والے گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ملک میں انٹیلی جنس کے نظام کو مؤثر اور بہتر بنایا جائے گا۔ تا کہ معاشرے میں پراسرار سرگرمیوں میں مشغول مشتبہ عناصر پر نظر رکھی جا سکے اور کسی نقصان سے پہلے ہی ان کی سرکوبی کی جا سکے۔ ان اعلانات کی اہمیت اب صرف یہ رہ گئی ہے کہ یہ پاکستان کے سرکاری ریکارڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔ صفورہ چورنگی کے قریب ہونے والے سانحہ کے بعد ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت کراچی میں جمع ہوئی۔کئی اعلیٰ سطحی اجلاس بھی منعقد ہوئے۔ لیکن ان کی اہمیت آئے ، بیٹھے ، بات کی اور چلے گئے ،ا س زیادہ نہیں ہے۔
اب پھر کالعدم تنظیموں کے خلاف لسانی ، مذہبی ، فرقہ وارانہ اور سیاسی تفریق کے بغیر کارروائی کرنے کا اعلان اور وعدہ کیا گیا ہے۔ اگر اس کی بجائے یہ اعلان کیا جاتا’ ملک میں موجود تمام کالعدم تنظیموں سے وابستہ اور نئے ناموں سے متحرک لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ ان تنظیموں کے دفاتر سیل اور رہنما گرفتار کر لئے گئے ہیں اور اب اگلے مرحلے میں فرقہ وارانہ بنیاد پر مساجد کو ٹھکانے اور پناہ گاہیں بنا کر معاشرے میں زہر گھولنے والے ملائوں اور پیشوائوں کے خلاف کارروائی ہو گی ” تو شاید اہل پاکستان اپنے قائدین پر بھروسہ و اعتماد کا اظہار کر سکتے۔ بصورت دیگر ان اعلانات کی حیثیت اس کاغذ سے بھی کم سمجھی جا سکتی ہے جس پر یہ حروف تحریر کئے جاتے ہیں۔
گزشتہ روز سرکاری عمارات پر پاکستان کا قومی پرچم سانحہ بس کراچی کے سوگ اور احترام میں سرنگوں رہا۔ قوم نے یوم سوگ منایا اور کراچی میں کاروبار اور تعلیمی ادارے بند رہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔ تاہم ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں اس قدر زخمی ہو چکا ہے کہ اب وعدوں اور دعوئوں سے باہر نکل کر عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ بدنصیبی کی بات ہے کہ ہر دہشت گرد کارروائی کے بعد چند روز مباحث اور بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پولیس ، رینجرز اور خاص طور سے سیاسی قیادت پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ صحافی ، رپورٹر اور مبصر اپنے اپنے طریقے سے یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیوں کر پولیس کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی تربیت اور زیر استعمال اسلحہ اور دیگر آلات میں نقائص ہیں۔ یا یہ کہ پولیس کی نفری زیادہ تر وی وی آئی پی ڈیوٹی پر رہتی ہے۔ اس کے پاس عام شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔
Government
حکومت اور اس کے ادارے اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ کون سی تنظیمیں اور لیڈر ملک میں منافرت اور شدت پسندی کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔ نہ ہی یہ بات کسی سے پوشیدہ ہے کہ کون سے مدارس میں کس قسم کا نصاب اور عقیدہ معصوم طالب علموں کو ازبر کروایا جا رہا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ان سارے مدارس کا براہ راست دہشت گردی کے کسی واقعہ سے تعلق نہ ہو۔ لیکن دہشت گردی کے جس تناور درخت کا اس قوم کو سامنے ہے ، اس کی پنیری ان ہی درسگاہوں میں تیار کی جاتی ہے۔ اب اگر عوام یا ان کے رہنما اس سچائی سے آنکھ بند کرتے ہوئے یہ مان لینے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں کہ انسانوں کے بیچ نفرت کا بیج بھی بویا جاتا رہے گا اور ملک میں خون خرابہ بھی نہیں ہو گا تو اس قسم کے رویہ کا علاج شاید دنیا کے عقل مند ترین شخص کے پاس بھی میسر نہیں ہو گا۔ یہ رویہ ہمیں خود تبدیل کرنا ہے۔ اس مزاج کو ہم نے ہی فروغ دیا ہے اور ہم ہی اسے بدل سکتے ہیں۔
نفرتوں اور انتہائی رویوں کے اس شعار نے اب اتنی شدت اختیار کر لی ہے کہ چند روز قبل سندھ کے دورے پر آئے ہوئے وفاقی وزیر عابد شیر علی نے قرار دیا کہ عمران خان کے ساتھ تو ہاتھ ملانا گناہ کبیرہ ہے۔ اس سے قبل کراچی کے ایک خود ساختہ عالم دین وفاقی حکومت کے وزیر اطلاعات کو کافر قرار دے چکے ہیں۔ ان دونوں واقعات میں جو مماثلت ہے ، اسے سمجھنا ہرگز دشوار نہیں ہے۔ یہ دونوں دین کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ مگر اس عمل میں وہ نفرت اور مسترد کرنے کا ایک ایسا رویہ عام کرنے کا سبب بنے ہیں جو اس ملک و قوم کو درپیش مشکلات کی بنیاد ہے۔ جو حکومت اپنے وزیر کی عزت کی حفاظت اور ایک دوسرے وزیر کی بدکلامی کی گرفت نہیں کر سکتی وہ ملک میں امن بحال کرنے کا مشکل اور پیچیدہ کام کس طرح سرانجام دے سکتی ہے۔
حکومت اور قیادت کے کسی اعلان اور وعدے پر اسی وقت اعتبار کیا جا سکتا ہے جب وہ عملی طور سے ان پر عملدرآمد کا ثبوت فراہم کرے۔ مزید یہ کہ ناکامی کی صورت میں ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے متعلقہ لوگوں کے خلاف فوری کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ سے استعفیٰ کا مطالبہ یا ڈی ایس پی اور انسپکٹر کی سطح کے چند افسروں کے عارضی تبادلوں سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اندیشہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔