بچپن سے لے کر اب تک جب بھی میں اپنے گائوں میں موجود قبرستان کے پاس سے گزرتا ہوں تو میرئے پائوں رک جاتے ہیں میری نظریں ایک جگہ پر ٹھہر جاتی ہیں وہ جگہ ہے قبرستان میں موجود اینٹوں سے بنی ایک چار فٹ کی چاردیواری جو ہمیشہ میں نے نئی نویلی دُلہن کی طرح اُجلی ہی دیکھی اُس چاردیواری کے اندر کا فرش بھی سرخ اینٹوں کا ہے اُس طرح ہی سُرخ جس طرح خون کا رنگ وہ فرش بھی ہمیشہ اس طرح ہی چمک رہا ہوتا ہے جس طرح تازہ خون ،خون تو مقبوضہ کشمیر میں میری بہنوں، بیٹیوں اور بیٹوں کا بھی بہہ رہا ہے لیکن پتا نہیں اُن کا خون کس قسم کا ہے جس کے بہنے پر دنیا کا ضمیر جاگنے کا نام ہی نہیں لے رہا لیکن اُن کا خون ہے بڑا نایاب جو پاکستان کی بے لوث محبت میں تاریخ ہی رقم کرتا جا رہا ہے اس وقت جب مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کو ہماری بہت زیادہ ضرورت ہے ہم اپنے مفادات کے لیے خود ساختہ مسائل میں الجھے ہوئے ہیں مفادات کی نذر تو ساہیوال سانحہ میں بہنے والے بے گناہ لوگوں کا خون بھی ہو گیا ہے لیکن یہ تو ہماری عادت ہے ہم وقتی طور پر دکھ محسوس کرتے ہے۔
خواہ ساہیوال سانحہ ہو یا ماڈل ٹائون سانحہ لیکن پھر ہم بھول جاتے ہیں بھول تو میں بھی گیا کہ میں تو بات کر رہا تھا اپنے گائوں میں موجود قبرستان کی، قبرستان کے درمیان میں موجود اینٹوں سے بنی ایک چار دیواری کی اور اُس کے سُرخ رنگ کے فرش کی،اُس فرش پر دو قبریںہے جو بچپن میں مجھ کو تجسس میں مبتلا رکھتی تھی کہ یہ قبریں کن کی ہے میرئے گاوں کا ہر شخص سب سے پہلے ان قبروں پر کیوں دُعا کرتا ہے یہ قبرستان میں موجود باقی قبروں سے کیوں صاف ستھری رہتی ہیںیہ قبرستان میں سب سے نمایا ں کیوں ہیںایک دن میں نے اپنے دادا جی سے پوچھایہ قبریں کن لوگوں کی ہیں کس کے رشتہ دار ہیں اُنھوں نے جواب دیا یہ شہیدوںکی قبریں ہیں یہ اس ملک کے اور ہمارئے محسن ہیں اور شہیدسب کے سانجھے ہوتے ہیں میر ا اگلا سوال تھا یہ کس طرح ہمارئے اور ہمارئے ملک کے محسن ہیں اور شہید کیا ہوتا ہے اُنھوں نے کہا کیونکہ یہ بغیر کسی لالچ اور طمع کے ہمارئے سکون اور اس ملک کی سلامتی کے لیے اپنی جان دئے دیتے ہیں اس لیے یہ ہمارئے محسن ہیں اور جو وطن کی خاطر اپنی جان قربان کرتا ہے وہ شہید ہوتا ہے لیکن پھر بھی جب میں قبرستا ن کے پاس سے گزرتا تو اُس چاردیواری کو دیکھ کر بہت سے سوالات میرئے دماغ میں گھومتے رہتے کہ یہ بغیر کسی خونی رشتے کے کیوں ہمارئے سکون کے لیے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
یہ ملک تو ہمار ا بھی ہے پھر یہ کیوں اس ملک کی سلامتی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیںاور پھر ان تمام سوالات کے جواب مجھ کو مل گئے اس سال فروری میں جب پاک بھارت سرحدوں پر کشیدگی اپنے عروج پر تھی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا ماحول تھابھارت نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے علاقے میں بمباری کی تو مجھ کو اس طرح محسوس ہو رہا تھا جس طرح کسی نے سر بازار مجھ کو برہنہ کر دیا ہے تمام پاکستانیوں کی طرح میرئے بھی جذبات یہ تھے کہ کاش میں اس کا بدلہ لے سکوں وہ دو دن جس طرح میں نے گزارئے وہ آپ سب بھی جانتے ہیں کیوں کہ جن حالات سے میں گزر رہا تھا اُن ہی حالات سے آپ گزر رہے تھے جو میرئے جذبات تھے اُس وقت آپ تمام لوگوں کے بھی وہ ہی جذبات تھے ان حالات میں جس طرح پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ہمارئے جذبات کی ترجمانی کی اُس طرح ہو سکتا ہے ہم خود بھی نہ کر سکتے اور پھر جب مجھ کو پتا چلا کہ پاکستان کی بہادر افواج نے بھارت کے دو طیارئے مار گرائے ہیں اور ایک بھارتی پائلٹ ابھی نندن گرفتار کر لیا گیا ہے تو میرئے آنسوں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
میرا دل کر رہا تھا کہ میں چیخ چیخ کر تمام دنیا کو بتائوں کہ ہم لاورث نہیں ہیں اور پھر اُسی دن مجھ کو ایک اور خبر ملی کہ میرئے گائوں کے قبرستان کے اند ر موجود اُس چار فٹ کی چاردیواری جس کو دیکھ کر میرئے قدم رک جاتے ہیں جس پر ہمیشہ میری نظریں ٹھہر جاتی ہیں جس کے فرش کی اینٹیں اُس طرح ہی سُر خ ہے جس طرح خون کا رنگ اُس میں اب ایک اور مکین کا آضا فہ ہو گیا ہے جس نے ہمارئے سکون کے لیے اوراس ملک کی سلامتی کے لیے اپنا پاک خون اس دھرتی پر نچھاور کر دیا ہے اُس کے تین دن بعد جب میں اویس شہید کے گھر گیا تو اُن کے والد کا فخر سے بلند سر اور والدہ کا آنسوں سے تر چہرہ دیکھ کر مجھ کو اس بات کا بھی جواب مل گیا کہ شہید کون ہوتا ہے اور شہید سب کا سانجھا کیوں ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام طبقہ فکر نے قربانیاں دی پیپلز پارٹی نے اپنے سر کے تاج بے نظیر بھٹو کو کھویا، اے این پی کے میاں افتخار نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اپنے بیٹے کاجسد خاکی اٹھایا، بلور خاندان نے اپنے لخت جگر کے جنازوں کو کاندھا دیا،مولانا فصل الرحمن نے تین دفعہ قاتلانہ حملوں کا سامنا کیا لیکن اس عفریت سے چھٹکارا پانے کے لیے افواج پاکستان نے جو قربانیاں دی وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
قدرتی آفات ہویا ملک میں لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ،ٹرین کا حادثہ ہو یا الیکشن ہر موقع پر ہم کو افواج پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جو افواج پاکستان کے مقابلے میں ملک کی خدمت کر سکے ہماری بدقسمتی تما م ادارئے نیب سے لے کر عدلیہ تک ہم اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے متنازعہ بنا چکے وہ ادارہ جو ملکی استحکام اور امن کا ضامن ہے اُس کے بارئے میں سوشل میڈیاپر یا اپنے نادان سیاستدانوں کے منہ سے افواج پاکستان پر الیکشن میں مداخلت کا الزام سنتا ہوں تو مجھ کو دکھ ہوتا ہے اگر ہم نے اپنے مفادات کے لیے اس ادارئے کو بھی متنازعہ بنا دیا تو ہمارئے پاس بچے گا کیا ہو سکتا ہے آپ کی طرح میرئے بھی کچھ خدشات ہوادارئے سے نہیں انفرادی طور پر اس ادارئے سے منسلک چند لوگوں سے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مجموعی طور پر پورئے ادارئے پر الزام لگا دیں ان حالات میں سب سے بڑی ذمہ داری جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب پر عائد ہوتی ہے جس طرح اُنھوں نے اپنے ادارئے میں کرپشن کے سدباب کے لیے اپنے ادارئے سے منسلک لوگوں کو سزا دی۔
اس طرح ہی ملکی سیاست میں ملوث آفسران کو بھی احتساب کے کٹہرئے میں لائے تمام سیاستدانوں کا بھی یہ فرض ہے وہ جلد سے جلد قانون سازی کے ذریعے الیکشن کمیشن کو با اختیار اور طاقتور ادارہ بنائے تا کہ وہ ملک میں آزادانہ الیکشن کروانے کے قابل ہوں، حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ وہ سیاستدانوں اور عوام کے تحفظا ت دور کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرئے جس میں وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ، تمام ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ،افواج پاکستان کے سربراہان اور تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان شامل ہوں جو کسی بھی ادارئے کے بارئے میں اپنے تحفظات کو اس کمیٹی کے سامنے پیش کرئے نہ کہ عوامی سطح پر اپنے خدشات کا اظہار کرئیں کالم کے آخر میں زاہد باجوہ پسروری صاحب کے یہ خوبصورت الفاظ،،سپاہی وہ عظیم لوگ ہوتے ہیںجو ہمارئے دشمن کی طرف سے چلائی گئی گولی اپنے جسم سے روک کر ہمیں محفوظ رکھتے ہیں سپاہیوں کے علاوہ ہمارئے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ ہمارئے باپ میں ہوتا ہے یا ہماری ماں میں۔۔اس لیے اپنی افواج کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا کریں۔