لاہور (جیوڈیسک) بدھ کے روز ماڈل ٹاؤن میں قائم منہاج القرآن کے دفاتر پر غم و غصے کی کیفیت غالب رہی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندےاور دیگر افراد پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں کے ساتھ اپنے غم کا اظہار کرنے اور اپنی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے وہاں آتے رہے۔
یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کئی کارکنان منگل کے روز پولیس کے ساتھ تصادم میں ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ تصادم اس وقت شروع ہوا تھا جب پولیس منہاج القرآن کے سیکریٹیریٹ پر رکاوٹیں ہٹانے کے لیے پہنچی تو کارکنوں نے اس پر مزاحمت کی۔
ہلاک ہونے والوں کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ ان کی اموات گولیوں کے زخموں سے ہوئی تھیں۔ یہ پوسٹمارٹم ڈسٹرکٹ اسٹینڈنگ میڈیکل بورڈ کی جانب سے علامہ اقبال کالج اور جناح ہسپتال کے فارنسک ڈیپارٹمنٹ میں کیا گیا تھا۔
اسٹینڈرڈ آپریٹنگ کے طریقہ کار کے مطابق ڈسٹرکٹ اسٹینڈنگ میڈیکل بورڈ کی جانب سے ان لوگوں کا پوسٹمارٹم کیا جاتا ہے جو پولیس مقابلے میں یا جیل میں ہلاک ہوئے ہوں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے یہ سب سے پہلا تحریری ثبوت تھا ، جس نے تصدیق کی کہ سات افراد بشمول دو خواتین اور ایک لڑکا کے، گولی لگنے سے ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے قبل کچھ پولیس حکام نے ان ہلاکتوں کو جسمانی تصادم سے منسوب کیا تھا۔
پوسٹمارٹم کے عمل میں شامل ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ طبی ماہرین کو ایک متاثرہ شخص کے پیٹ سے ایک گولی بھی مل گئی ہے، جسے انہوں نے تجزیے کے لیے فارنسک سائنس ایجنسی میں بھجوا دیا ہے۔
انہوں نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کے ساتھ بتایا کہ گولی کے اس سائنسی تجزیے سے یہ طے کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ آیا یہ ایک سرکاری ہتھیار سے فائر کی گئی تھی یا کسی نجی ہتھیار کے ذریعے۔
فارنسک سائنس ایجنسی کے تجزیے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس کے بیان کے تناظر میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، جس میں اس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کے کچھ کارکن بھی مسلح تھے اور بہت سے سیکیورٹی گارڈ بھی اس تصادم کے دوران فائرنگ کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔
ڈسٹرکٹ اسٹینڈنگ میڈیکل بورڈ کو جمع کرائی جانے والی اپنی یادداشت میں واضح طور پر اس کی نوعیت کا تذکرہ کیا تھا اور گولی سے زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی بیان کی تھی۔ پولیس کی یادداشت کسی لاش کے پوسٹمارٹم کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اس یادداشت میں متاثرہ شخص کا نام، عمر، صنف، قد، تاریخ، وقت اور جائے واردات کے علاوہ دیگر متعلقہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت نے اس بات کی تصدیق کی کہ ڈسٹرکٹ اسٹینڈنگ میڈیکل بورڈ عام طور پر پولیس مقابلے یا جیل میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کا پوسٹمارٹم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’لیکن ہم نے قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ہلاک ہونے والے سات افراد کی لاشوں کے پوسٹمارٹم میں علامہ اقبال میڈیکل کالج کے فارنسک ڈیپارٹمنٹ اور ڈسٹرکٹ اسٹینڈنگ میڈیکل بورڈ دونوں ہی کو شریک کررکھا ہے۔‘‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت نے کہا کہ دونوں محکموں کو شریک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ہلاک ہونے والے سات افراد کی ہلاکتوں کے حوالے سے اس الجھن کو دور کیا جائے کہ آیا یہ پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے یا سویلین کی فائرنگ سے۔
یہ رپورٹس بھی ملی ہیں کہ پاکستان عوامی تحریک کے دو مزید کارکن جنہیں پولیس کی چھاپہ مار کارروائی کے دوران گولیاں لگی تھیں، وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
اسی دوران پولیس نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے بیٹے حسین محی الدین سمیت پی اے ٹی کے کارکنان کے خلاف ایک مقدمہ درج کرلیا۔ لیکن طاہرالقادری کے بیٹے کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔
منگل کے روز گرفتار ہونے والے 53 افراد میں سے 38 کو ایک عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ عدالت نے گیارہ خواتین اور دو بزرگ افراد کو رہا کردیا، اور ان میں سے نو کا طبّی معائنہ کروانے کا حکم دیتے ہوئے 16 کو ریمانڈ پر عدالتی حراست میں لے لیا۔
پنجاب کے مختلف قصبوں میں اس واقعے کے خلاف احتجاجی جلسے منعقد کیے گئے، لیکن لاہور میں ایسا کوئی مظاہرہ نہیں ہوا پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کی جانب سے اس واقعے کے خلاف اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے بجٹ پر جاری بحث کا بائیکاٹ کیا گیا۔
اس واقعے پر تبادلۂ خیال کے لیے پنجاب کی کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پانچ وزراء پر مشتمل ایک وفد منہاج القرآن کے دفاتر میں بھیجا جائے، جو پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں سے اپنی ہمدردی کا اظہار کرے۔ لیکن بعد میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنماؤں نے اس وفد سے مبینہ طور پر ملنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ’’ہم قاتلوں کے نمائندوں کا خیر مقدم نہیں کرسکتے۔‘‘
کینیڈا سے بذریعہ وڈیو لنک ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طاہر القادری نے حکومتِ پنجاب کی درخواست پر عدالتی کمیشن کے قیام کو مسترد کردیا۔