پاکستان میں بحران کیوں…..؟؟؟

Zulfiqar Ali Bthu

Zulfiqar Ali Bthu

سوچتا ہوں کاغذ کالے کرتا رہتا ہوں جن کا کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا کئی مرتبہ ملک میں جاری مختلف بحرانوں پر کیوں اور زمہ دار کون؟ لکھ کر اخبار کے صفحات سیاہ کئے کبھی مثبت یا منفی ردِ عمل سامنے نہیں آیا، اور اِسی طرح عام قسم کے اخبارات بھی محض اپنے صفحے ہی سیاہ کرتے ہیں نتیجہ کچھ بھی نہیں، یہاں بحران ہی بحران آج تک زمہ دار کون؟ تعین نہیں کیا گیا میں ایسے بحران کیوں نہیں ،؟ اِس کیوں کی تلاش کرتے ہیں ،وہاں تھنک ٹینک ،یا منصوبہ ساز قابل دماغ آنے والے کم وبیش پچاس، سو برس کے لئے سوچتے اور منصوبہ سازی کرتے ہیں، مثال کے طور پر 74 ء میں عرب اسرئیل جنگ میں جناب زلفقار علی بٹھو مرحوم نے عربوں کو کہا مغرب کا تیل بند کر دیں ،تیل بند ہونے سے مغرب میں ایک حل چل مچ گئی، جب یہ جنگ ختم ہو ئی تو مغرب کے منصوبہ ساز اعلےٰ دماغ جسے تھنک ٹینک کہا جاتا ہے سر جوڑ کر بیٹھ گئے یہ کیا ؟پھر انہوں اگلے سو، پچاس برس کی منصوبہ بندی کی کے آئندہ کبھی ایسے موقع پر تیل پیدا کرنے والے ملک تیل کا ہتھیار استعمال نہ کر سکیں۔

پھر 90ء میں عراق کو تھا پی لگائی کہ کویت تو عراق کا حصہ ہے سو صدام نے کچھ سوچے بغیر ہی کویت پر قبضہ کر کیا دوسری طرف عربوں کو کہا گیا کہ صدام پورے عرب پر قبضہ کرنے کے موڈ میں ہے، تو عربوں نے کہا ہمیں اِس ہٹلر سے بچایا جائے، اِس سودے بازی سے ایک طرف امریکہ میں اسلحہ ساز فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنے لگا تو دوسری طرف … !سو پھر آج تک عربوں نے کبھی تیل کا ہتھیار استعمال نہیں کیا کہ مغرب کے ان تھنک ٹینک نے یہ ہتھیار ہی کند کر دیا ہے، یہ ہی نہیں وہ تو قدرتی آفات سے بچنے کی بھی منصوبہ بندی قبل از وقت کرتے ہیں ،دور نہ جائیں گزشتہ نومبر میں ایک امریکی ریاست میں باد وباران کا طوفان آیا، اگر بچنے کی منصوبہ بندی نہ کی ہوتی تو زیرزمیں ریلوے میں ہزاروں لوگ زندہ دفن ہوجاتے(اور یہاں پلازوں میں لگی آگ سے بچنے کا کوئی معقول انتظام نہیں اور کتنے ہی لوگ جل مر تے ….)مگر دو افراد کے مرنے کی خبر تھی ،اور دوسرے ہی دن پولنگ بھی ہوئی اور یہا ں ایسا ہو تو…..!تاریخ سامنے ہے۔

ملک میں ایسا تھنک ٹینک نہیں اگر ہے تو محض سفا رشی ڈگری ہولڈر ہو سکتا ہے یہ ڈگریاں….!دیکھیں ناقص منصوبہ بندی ہی کی وجہ سے گیس بحران پیدا ہوا ،کہ پہلے تو بنکوں کے منہ کھول دئے لوگ قرضے لیکر گاڑیاں خریدیں پھر سی این جی متعارف کرادی کہ ہر دوسرے موٹر سائیکل سوار نے قسطوں پر گاڑی خریدی کے سستی گیس سے سیر سپاٹے تو ہونگے پھر دیکھتے ہی دیکھتے برسات میں اگنے والی خود رو کھمبیوں کی طرح جگہ جگہ سی این جی سٹیشن کھلتے چلے گئے اور جتنی گیس اگلے سو برسوں میں گھر کے چولہوں میں جلتی اِن سات آٹھ برسوں پھونک دی گئی اور پھر ٹرانسپوٹر نے بھی سستی گیس سے فائدہ اٹھایا پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر منتقل ہو گئی، یہ ہمارے منصوبہ ساز کا کمال تھا کہ پہلے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کو بند کرایا کہ اس کا ترتیب دیا گیا کرایہ پورے ملک میں رائج تھا عوام ٹرانسپورٹر کی لوٹ مار سے محفوظ تھے۔

CNG Stations

CNG Stations

اب سستی گیس پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کا کرایہ مہنگے ڈیزل کے حساب سے عوام سے وصول کیا جاتا ہے اس طرح ٹرانسپوٹر کی چاندی ہے، ریلوے کا بہترین نظام تھا عوام کو سستی اور محفوظ سواری میسر تھی ،منصوبہ بندی کے تحت تقریباً آخری دموں پر تاکہ ٹرانسپورٹر عوام کو لوٹنے میں آزاد ہو ۔اب گیس کی قیمتوں میںآئے دن اضافہ سے غریب عوام جو قدرت کے عطیہ سے مستفید ہورہے تھے پریشان ہیں.. اب مستقبل میںگیس کا بھی شدیدبحران ہوگا،اگر تو گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے کی بجائے صرف سی این جی کی قیمت پٹرول تک کر دی جائے تو گیس بحران میں کمی ہو سکتی ہے اور کارخانے بھی چلیں گے مگر پھر یہ دو دو چار چار گاڑیاں رکھنے والے غریب عوام…! یہ تو بہت پرانی بات ہے کہ 94 ء میں گندم 220، روپئے من تھی، 2007، میں 350 ، روپے اور آج یہ گندم 1200 روپئے سے زیادہ ہے یہ گندم جو تمام اجناس کا محور، سابق جاگیر دار وزیر آعظم نے کہ وہ عوام کا حقیقی نمائندہ نہیں بلکہ اپنی قبیل کی نمائیدگی کرتے ہوئے گندم کی قیمت ہزار روپئے سے بڑھا دی۔

یہ مہنگائی بھی آج کا سلگتا ہوأ موضوع ہے کبھی آٹے، کبھی چینی ،کبھی تیل ،کبھی سیلاب، اور بجلی کا شدید بحران کے جس کی وجہ سے قومی سیاسی پارٹی کا انتخابات 2013 ،میں صفایا ہو گیا، اور وہ لاڑکانہ تک سمٹ گئی ،اوراب یہ مہنگائی کا شدید بحران جس کا کوئی حل نہیں ،اورعام آدمی کے نوالے پر بھی ٹیکس، جس سے عوام نما کیڑے مکوڑوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ بات شروع کی کہ پاکستان ہی میں بحران کیوں ؟جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ ناقص منصوبہ کی وجہ سے گیس کے بحران نے جنم لیا اور یہ آنے والے وقت میں شدید تر ہوگا اُس وقت کسی نے نہیں سوچا کہ کل اِس کے کیا اثرات ہونگے، اب یہ واضح ہے کہ بحران کے زمہ دار منصوبہ ساز تھنک ٹینک اور اُس وقت کی سیاسی حکومت مگر مشکلات عوام کے حصہ میں آئیں گی۔

یہ توانائی کا بحرانجس نے معیشت کو مروڑ دیا ہے کارخانے بند اور ….یہ دو ڈیم منگلہ اور تربیلہ پتہ نہیں کس طرح ایوب کے مارشل لاء میں بنے پھر کوئی ڈیم نہیں بنا کے ایک تو پانی ضائع ہونے سے بچ جائے دوسرے عوام کو سستی پن بجلی ملتی اور آج بجلی کے بحران سے دنیا میں جگ ہنسائی نہ ہوتی بڑے تفاخر سے کہتے ہیں کہ ہم ایٹمی قوت ہیں مگر بجلی کے لئے در در پھر رہے ہیں مشرف نے جہاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار میڈیا کو وہ آزادی دی جس کا تصور بھی نہیں تھا وہ یہ کام کرنے کو تھا مگر سیاست دانوں نے الجھا دیا اور سیاست میں پڑ گیا اگر کالا باغ ڈیم پر سیاست نہ کی جاتی اور ڈیم بن جاتا تو …مگر سیاسی حکومتیں سیاست میں الجھی رہی نتیجہ آج تونائی کے اس بحران نے بہت کچھ الٹ پلٹ دیا ہے بجلی اتنی مہنگی، جس کا ایٹمی پاور والے ملک میں تصور بھی نہیں یہ منصوبہ سازوں اور سیاسی حکمرانوں کی نااہلی ،اب بجلی کے لئے در در پھر رہے ہیں۔

یہاں سب کچھ ہے اگر نہیں تو اعلےٰ دماغ اور اعلےٰ درجے کی محب پاکستان سیاسی قیادت…. آج یہاں سیاست حکمرانی اور کہ پاکستان کو کیسے نوچا جائے پاکستان کو کیسے نوچا گیا یہ سب ریکارڈ پر …..ملک ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہے. اِسی تناظر میں دیکھیں ملک میں دیگر بحران پیدا ہوتے ہیں، اور پیدا کئے جاتے رہیں گے اور پھر….!ہماری قیادت بڑے فخر سے کہہ رہی ہے چین ہماری مدد کریگا….کیوں ناکرے پاکستان اُس کی سب بڑی منڈی ہے اپنی منڈی کی حفاظت اور تحفظ اُس کی زمہ داری…….! اب ایٹمی قوت کے حوالے سے چین کے ہم پلہ مگر دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی (ما سوائے کرپشن)سو برس پیچھے چلے گئے کیوں ؟ اِس کیوں کی تلاش بھی ضروری۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی
03054784691