تحریر : قادر خان افغان پاکستان کی اعلی عدلیہ نے وہی فیصلہ کیا ، جس کا یقین تھا ، جس کا اظہار ایہ میں اپنے گذشتہ کئی کالموں میں کر تا آرہا ہوں ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین ایک بار پھر سپریم کورٹ فیصلے پریو ٹرن لیکر اپنی روایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔تمام باتوں سے قطع نظرسپریم کورٹ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ جب لاک ڈائون کال پر صوبوں اور وفاق کے درمیان جنگ جاری تھی ، انھوں نے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے تمام فریقین کو عدالت میں طلب کرکے تمام اختیارات پر ان کا اعتماد حاصل کرلیا ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی کہ عدالتوں نے فوری اور جلد انصاف دیا ہو۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہوسکتا تھا کہ سپریم کورٹ ایک مہینے کے اندر اتنے بڑے اسکینڈل کا فیصلہ کردیتی ۔ نواز حکومت اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہی ، پہلے مرحلے میں عمران خان کو بنی گالا تک محدود رکھ کر تمام ریاستی وسائل کو بروئے کار لاکر اداروں کو مجبور کردیا کہ وہ اِن سمیت سب کو بند گلی سے نکالیں ۔ عمران خان، شیخ رشید اور نواز شریف برادران بند گلی میں پھنس چکے تھے ، عسکری قیادت نے تہہ کرلیا تھا کہ وہ سیاسی عمل کو چلنے دے گی ، مداخلت نہیں کرے گی۔اس لئے ایمپائر کی انگلی کا انتظار کرنے والوں کو ایمپائر نے کہہ دیا کہ کم روشنی کی وجہ سے مزید کھیل جاری نہیں رہ سکتا۔
میچ بغیر کسی نتیجے میں کے ختم ہوگیا، اور عدلیہ نے اپنی نوعیت کی سب سے بڑی عقل مندی اور بعض کے نزدیک سیاسی معاملات کو عدالت میں لاکر غلطی کی کہ پانامہ جیسے جلیبی کیس پر توقعات پیدا کیں کہ وہ کیس کا فیصلہ کرکے عوام کو بحران سے نکال دیں گے۔لیکن ہمارے اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس صاحب کو کیا یہ علم نہیں تھا کہ یہ پاکستان کا عدالتی نظام ہے ، جہاں کسی بے گناہ کو 19 سال قید میں رہنے کے بعد با عزت بری کردیا جاتا ہے ۔ 19 سال جیل میں رہ جانے کے بعد عزت رہ ہی کب جاتی ہے ، عزت تو اس دن ہی چلی جاتی ہے جب پولیس اس کے گھر میں داخل ہوکر چادر و چاردیواری کو پامال کردیتی ہے ۔پھر اسی پانامہ کیس کی سماعت کے دوران دو تین مقدمات ایسے بھی آئے جس میں کسی کو 9 سال بعد ، کسی کو 11 سال بعداسی اعلی عدلیہ نے پھانسی کے پھندے سے بچا کر بری کیا۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ بڑا عجیب چلن چل نکلا تھا ، کہ جیسے عدلیہ میں سماعت ختم ہوتی ، سیاسی جماعتوں کے رہنما ئوں و میڈیاکی عدالت لگ جاتی اور ہر ایک یہی کہتا ہے کہ ان کا موقف بھرپور تھا ، عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ کیس ختم ہوگیا،مبارک ہو ۔ لیکن جب عدلیہ نے ان سب سے پوچھا ، عدلیہ فیصلہ کرے یا کمیشن بنا دیا جائے ، تو عمران خان حیران رہ گئے ، انھیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دیں ۔ حالاں کہ ناکافی ثبوت کے ساتھ ، مقدمہ لیکر وہ پر امید تھے کہ ان کے حق میں فیصلہ آئے گا ، تو میرے معصوم کپتان نہ جانے کس خوش فہمی کا شکار ہوگئے تھے ۔ عدلیہ نے واشگاف انداز میں کہہ دیا تھاکہ یہ جو اخباری تراشوں کی فوٹو کاپیاں لائی گئیں ہیں ، یہ اخبار ایک دن کیلئے ہوتا ہے اگلے دن اس میں پکوڑے بکتے ہیں ۔ عدلیہ نے بار ثبوت شریف فیملی پر رکھ دیا ۔ دلائل چلتے رہے ، اور ہمارے سیاست دان اپنی عدالت لگا کر اپنے مخالف کے خلاف فیصلے بھی دیتی رہی ، اس میں بڑھ چڑھ کر اینکرپرسنز نے بھی حصہ لیا ، بعض اینکرز پرسن نے 007ایجنٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔وہ دستاویزات میں ، تقاریر میں ، بیانات میں ایسے ایسے نکات بیان کرنے لگے ، جیسے یہ اینکر پرسن نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی تفتیشی ٹیم کا کوئی حصہ ہیں۔
Media
میڈیا نے عدالتی معاملات کو اتنا حساس بنا دیا کہ اپنی مدت پوری کرنے والے معزز عدالت کے چیف آف جسٹس بھی گھبرا گئے ،یہ رسک لینے کو تیار نہیں تھے کہ اپنی تمام عمر کی نیک نامی کے بعد جب وہ ریٹائرڈ ہوں تو افتخار چوہدری کی طرح متنازعہ بن کر مدح سرائی کرنے والوں کی گالیاں اور الزامات ان کا زندگی بھر پیچھا کرتے پھریں ، اس لئے انھوں نے عمران خان کا دیرینہ مطالبہ کہ سپریم با اختیار جوڈیشنل کمیشن بنا دے ، کا آپشن ان کے سامنے رکھ دیا لیکن عمران خان نیازی نہایت عجلت پسند اور یو ٹرن کے بادشاہ ہیں۔ اپنے ہی مطالبے سے منکر ہوگئے اور عدلیہ کو دھمکی دے ڈالی کہ اگر کمیشن بنایا تو وہ کمیشن کا بائیکاٹ کردیں گے شائد عمران خان بھول گئے ، کیونکہ وہ اکثر بھول جاتے ہیں، کہ جب یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے میں خواجہ آصف کے ساتھ عمران خان فریق تھے ، توہین عدالت کا سادہ ترین کیس تھا ، اس کا فیصلہ ہونے میں بھی تین مہینے لگ گئے تھے۔پھر یہ تو مالی معاملات ہیں ، اس کی مکمل تحقیقات اور تحمل و مستقبل مزاجی کی ضرورت ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کمیشن بننے کا فیصلہ ایک درست اقدام تھا، کیونکہ سپریم کورٹ کے آرٹیکل کے تحت جو کمیشن بھی بنے گا ، وہ سپریم کورٹ کے اسی لارجر بینچ کے سامنے جوابدہ ہوگا اور اس کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ کے اسی لارجر بینچ کا سامنے فیصلے کے لئے آئے گا ۔ حمود الرحمن کی طرح دیگر کمیشن کی طرح اس کمیشن کی پوزیشن اس نہیں ہوگی کیونکہ آئین کی جس شق کے تحت کمیشن بنایا جارہا ہے وہ فیصلے کیلئے اعلی عدلیہ کے لارجر بینچ کے سامنے پیش ہوگا۔
دیگر کمیشن کی طرح حکومت کی صوابدید پر نہیں ہوگا کہ وہ کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر عوا م کے سامنے لانے سے روک سکے۔کمیشن بنانے کے فیصلے پر عمران خان کی دھمکی کے بعد اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس نے وہی کیا ، جو کرنا چاہیے تھا ۔انھوں نے حسب توقع کہہ دیا کہ اگر عدالت فیصلہ کرے گی تو دوسرا فریق کہے گا کہ ہمیں سنا ہی نہیں کیا گیا ۔ کیونکہ ابھی نواز شریف کے وکیل کے دلائل چل رہے تھے ، حسین اور حسن نواز شریف کے وکلا کے بیان باقی تھے ، پھر عدالت میں جمع کرائے جانے والے ہزاروں صفحات کو پڑھنا ہے اور انھوں نے بڑی اہم بات کہی کہ”: پتہ نہیں آپ نے ہزاروں دستاویزات پڑھی ہیں کہ نہیں لیکن ہم نے ایسے پڑھنا ہے ممکن نہیں کہ دو دن میں فیصلہ سنا دیا جائے”اور اس کے علاوہ ان کی تصدیق متعلقہ اداروں سے کروانے کا ایک طویل مرحلہ بھی ہے ، جس کا حشر اصغر خان کیس سے بدتر ہوتا ۔چیف جسٹس صاحبان کا موقف بالکل درست تھا ، اس لئے انھوں نے کمیشن بنانے کا آپشن دیا ، عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کی نگرانی میں با اختیار جوڈیشنل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرچکی تھی ، لیکن عمران خان کو دوبارہ” بھول “گئے کہ وہ تحریک انصاف کے اجلاس میں نہیں سپریم کورٹ میں ہیں ، وہ” بھول “گئے کہ وہ پاکستان کے اعلی عدالت میں موجود ہیں ۔ وہ یہاں چیف جسٹس کو اُس طرح نہیں کہہ سکتے تھے ، جب سپریم کورٹ کے ایک اہلکار نے انھیں عدلیہ میں داخلے کے لئے شناختی علامت کا کہا اور کارڈ پہننے کا کہا تو انھوں نے متکبرانہ انداز میں اُس پولیس اہلکار کو کہا تھا کہ” تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں؟.”۔
پانامہ کیس کی سماعت جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کردیا گیا ۔ اب نئے چیف جسٹس ثاقب نثار آکر نئے لارجر بینچ بنائیں گے اور کولہو کی بیل کی طرح کیس دوبارہ چلے گا ۔ عمران خان اب یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ چلیں جوڈیشنل کمیشن بنا دیں ، لیکن اس کی نگرانی و سماعت سابق چیف آف جسٹس انور ظہیر جمالی ہی کو مقرر کردیا جائے ۔اب عمران خان کے پاس اس معاملے میں دھرنوں کا آپشن بھی نہیں رہا ، لاک ڈاون و مظاہروں کا بھی اعلان نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بڑا درست کہا تھا کہ “پانامہ کیس کا مقدر یقینی موت اورکمیشن کی خواہش خودکشی ہوگی”۔ اب عمران خان کے پاس واحد ایک راستہ رہ گیا ہے کہ وہ 27دسمبر بلاول بھٹو کی جانب سے حکومت کے خلاف دھرنے میں پی پی پی کا ساتھ دیں ۔ لیکن پی پی پی کے خلاف انھوں نے اپنی تقاریر میں اتنے الزامات اور بد زبانی استعمال کی ہے ، کہ شائد وہ شش و پنچ کو شکار ہوجائیں ، لیکن انھوں نے اتنے یو ٹرن لئے ہیں ، اگر ایک اور لے لیں تو کوئی فرق تو نہیں پڑے گا ۔ جب بلدیاتی انتخابات میں ضلعی چیئرمینز کے لئے اپنی سب سے زیادہ مخالف جماعت ، جیسے وہ دہشت گرد قرار دیتے ہوئے برطانیہ سزا دلانے پہنچ گئے تھے ، ان سے ہاتھ ملا سکتے ہیں ۔اور اپنا ضلعی نائب چیئرمین ایم کیو ایم سے اتحاد پر منتخب کراسکتے ہیں ، تو پی پی پی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں ، ویسے بھی اس جمہوری نظام میں حرف آخر تو ہوتا نہیں ۔سیاست میں” مذاکرات” کے دروازے بند نہیں ہوتے ، جمہوری نظام ہے ۔’ بندے گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے’۔