تحریر : راشد علی راشد اعوان یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ فطرت انسانی میں یہ شامل ہے کہ وہ ہمیشہ ہی اپنے خطے سے تعلق داری قائم رکھتا رہا ہے ‘ اپنے خطے کا دفاع بھی انسانی فطرت کا حصہ رہا ہے کیونکہ انسان کے مفادات اس سرزمین سے جڑے ہوتے ہیں،اسی لحاظ سے مجھے بھی فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں،میرا یہ وطن میری شناخت، میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان ہے، مجھے یہ شناخت میرے آبائواجداد نے بڑی تگ و دو، جدوجہد، اور قربانیوں کے بعد حاصل کر کے دی، اب اسے برقرار رکھنا اور اس پر فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا میرے اسلاف کے چھوڑے ہوئے ترکے اور وراثت پر اپنا حق سمجھنا ہوتا ہے،مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟نصف صدی سے زائد سے ملک عزیز میں کیا ہوا؟دنیا کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟۔
میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس وطن عزیز میں وہ سانسیں نصیب ہو رہی ہیں جو دنیا کے بیشتر علاقوں،ملکوں کے باشندوں کو نصیب نہیں،مجھے اپنے گھر میں اپنے وطن میں ٹھنڈی چھائوں نصیب ہے اور مجھے میرے عزیز تر رشتے میسر ہیں،گذشتہ69 سالوں میں اس ملک میں جو نسلیں پیدا اور جوان ہوئی ہیں، ان کی سوچ، سمجھ اور خیالات میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل و صورتحال اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور روز مرّہ مسائل کا بڑی حد تک عمل دخل ہے،نئی نوجوان نسل اپنے اس وطن عزیز سے محبت تو ضرور کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خون اور گھٹّی میں شامل ہے لیکن محبتکا وہ جنون اور عشق جو دیوانگی کی حد تک ہمیں اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا۔
شاید آج مفقود ہے،اس کی ایک اہم وجہ ہماری وہ میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا و مغربی یلغار ہے جسے ہمیں نے میڈیا کے راستے اپنی نوجوان نسل کو اس میں ڈبو رکھا ہے،اپنے اسلاف اور اپنے ملک کی تحریک آزادی و تحریک پاکستان سے نابلد ہماری نوجوان نسل مغرب کی اندھی تقلید میں جتی ہوئی ہے اور اسی تقلید کی بابت سونیا گاندھی نے برسوں پہلے اپنی فتح کی وکٹری کے ساتھ کہا تھا کہ ہم نے پاکستان پر وہ ثقافتی یلغار لڑی ہے جو کہ ہتھیاروں سے ناممکن تھی،ہو سکتا ہے کہ اکثریت میری اس بات سے اتفاق نہ کرے اور ماضی کی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کے علاوہ حکومتِ وقت کی نااہلیوں کو ان تمام مسائل کا سبب قرار دے۔
Happy Independence Day
مجھے اس نقطے سے بھی کلی اختلاف نہیں کہ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ بحیثیتِ پاکستانی، ہم سب بھی اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں اور اب تو یہ معاملہ سنگینی کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا ہے،اور اگر اس غفلت کی بنیادی وجوہات پر نظر دوڑائی جائے تو سب سے پہلی بات جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس ملک کو اپنا سمجھنا چھوڑ دیا ہے، ہم انفرادی حیثیتوں میں صرف اپنے گھروں کی چاردیواری کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس چار دیواری سے باہر کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے، نہ تو اس میں اپنے کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے اہم بنانا چاہتے ہیں، ملک کو اپنی ذمہ داری سمجھنا تو دور، ہم نے شاید اسے اپنا ماننا بھی چھوڑ دیا ہے، ہر بات کی ذمہ داری دوسروں پر، اداروں پر، معاشرے پر، میڈیا پر، سیاسی رہنماؤں پر، اور حکومت پر ڈال کر ہم اپنے فرائض سے غافل کیسے ہو سکتے ہیں۔
آج69 واں یومِ آزادی ہے تو کیوں نہ اس موقع پر خود سے سوال کریں کہ کیا ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے؟ یا کیا ہم اس پہچان پر واقعی فخر کرنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یقین جانیے کہ راستہ صاف اور منزل قریب ہے،بزرگوں سے سنا تھا کہ محبت قربانی مانگتی ہے، عشق صلے سے بے پرواہ ہوتا ہے، اور پیار دینے اور دیے جانے کا نام ہے اور اگر اس پہلو سے پرکھا جائے تو سب سے پہلے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ اجتماعی سطح پر یہ سوال اٹھانے سے پہلے آئیے ذرا انفرادی طور پر خود سے یہ سوال پوچھیں،مسائل و گرداب میں سر سے پائوں تک ہم دھنسے ہوئے ہیں،ہمارے ان زخموں پر نمک کا کام بھی ہماریان کے سر ہے جنہیں اشرافیہ کہا جاتا ہے،گلی محلے میں کونے کونے میں گندگی، اور بلدیاتی اداروں کی نااہلیوں پر تبصرہ کرتے ہم خود گندگی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔
تعلیم کے معیار اور تعلیمی اداروں میں تفریق پر ماتم کرتے ہم خود اس سسٹم میں تبدیلی لانے کے بجائے کوچنگ سینٹرز اور پرائیویٹ ٹیوشن کے کلچر کر فروغ دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، بجلی کے بحران پر آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ کنڈا سسٹم پر اپنے گھروں میں اے سی چلانے اور بجلی چوری کے مرتکب ہونے والے بھی تو ہم ہی ہیں،،،،،یقین جانیں جب ہم اپنے گریبان میں جھانک چکے اور ہمیں احساس ندامت ہو گیا تو ہماری کامیابی کی پہلی سیڑھی پر ہمارے قدم پہنچ جائیں گے اور جب پہلا قدم اٹھتا ہے تو پھر قدم اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے آمین ثم آمین۔