پاکستان اور ترکی کے درمیان بکتر بند گاڑیوں کی تیاری میں تعاون پر معاہدہ طے

Armored Vehicle

Armored Vehicle

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان اور ترکی کے درمیان بکتر بند گاڑیوں کی تیاری میں تعاون کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

دفاعی ہتھیاروں کی نمائش آئیڈیاز2014 کے دوران ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اور ترک کمپنی MSNAURAL کے درمیان مفاہمتی یادداشت پردستخط کیے گئے جس کے تحت ترک کمپنی ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا کو بکتر بند آرمرڈ بی سیون کی تیاری کے لیے میٹریل فراہم کرے گی۔ ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اس سے قبل آرمرڈ بی سکس تیار کررہا تھا جو ہلکے ہتھیاروں پسٹل اور کلاشنکوف کی گولیوں سے تحفظ فراہم کرتی تھی تاہم اب ترکی کے تعاون سے اپ گریڈ ورژن تیار کیا جائے گا جواسٹیل بلٹس سے بھی تحفظ فراہم کرے گا۔

اس دوران اے ایف پی سے گفتگو میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کے سربراہ ایئرمارشل جاویداحمد نے کہاکہ پاکستان میں تیار کردہ جے ایف17تھنڈر 50 طیارے فضائیہ کے حوالے کردیے گئے ہیں جبکہ اگلی کھیپ ماہ رواں میں ملنا شروع ہوجائے گی۔ جے ایف17ایک جدید لڑاکا طیارہ ہے اور فضائیہ کی ضروریات پوری کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

اس نمائش میں کئی ملکوں نے پاکستانی طیارے میں دلچسپی ظاہرکی ہے۔ آئیڈیاز2014 کے تحت سینٹربرائے انٹرنیشنل اسٹرٹیجک اسٹیڈیز کے سیمینارسے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشدمحمود نے کہا کہ آئیڈیاز2014 نے ملک کو درپیش سیکیورٹی کے سنگین چیلنجوں کے باوجود پاکستان کی دفاعی صنعت کی کامیابیوں اور اس کی ریسرچ اور ڈیولپمنٹ سہولتوں کی نشاندہی کردی ہے۔

ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن کے زیراہتمام سیمینارکا عنوان ’’ایک متحرک سلامتی کے ماحول کے چیلنجوں کی تحقیق اور پیداوار کا ملاپ‘‘ تھا۔ روسی فیڈریشن، ملائیشیااور پاکستان کے معروف اسکالروں نے سیمینارکے موضوع پر اپنا اظہار خیال کیا۔ جنرل راشدمحمود نے کہا کہ دنیا کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے جبکہ پرانے سیکیورٹی خدشات نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے تبدیل ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ اسٹرٹیجک استحکام کی روایتی بنیادی تبدیلی کو دنیا کے معاملات میں نئی حقیقتوں اور تبدیل ہوتی ہوئی فوجی وسیاسی قوت کی عملداری نے ماضی میںدھکیل دیاہے۔ ریاستیں اب زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے پر انحصار کرنے لگی ہیں اور ابھرتے چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے مجموعی یااشتراکی سیکیورٹی طریقہ جات کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈاکٹرملیحہ لودھی نے اپنی پریذنٹیشن میں کہا کہ پاکستان کے لیے بڑاچیلنج عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کو شکست دینے، معیشت کو بحال کرنے، توانائی کا بحران حل کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم دینے اور نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے میں پنہاں ہے۔

ایئرمارشل جاویداحمد نے اپنی تقریرمیں کہا کہ جوں جوں چیلنجوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ دفاعی صنعت کے مواقع میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ پاکستان کی دفاعی صنعت نے سر پر لٹکتے ہوئے سیکیورٹی خطرات سے اچھی طرح نمٹا ہے۔

ڈاکٹر ولیم اسٹیون سن نے کہا کہ ٹیکنالوجی اور فوجی معاملات میں انقلابی تبدیلیوں نے سیکیورٹی کو ارضی سرحدوں اور سائبرخلا سے باہرجنگ کی ایک نئی سرحد میں تبدیل کردیا ہے۔ روسی انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹرٹیجک اسٹڈیزکے ولادیمر کوزن نے واضح کیا کہ بیرونی خلا مستقبل میں ریاستوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ کا ایک اکھاڑہ بن سکتا ہے۔ روسی فیڈریشن اب بھی بیرونی خلا کو پوری عالمی کمیونٹی کا ورثہ تصور کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

قبل ازیں DEPO کے ڈائریکٹرجنرل میجرجنرل آغا مسعوداکرم نے کہاکہ حالانکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ترقی یافتہ ممالک کے درمیان کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی گئی۔ اس کے باوجود ان کی دفاعی صنعتیں مسلسل فوجی آلات تیار کر رہی ہیں۔ ان میں کچھ آلات کم ترقی یافتہ ممالک کو بہت زیادہ قیمت پر اور کبھی کبھار سیاسی لاگت پر فروخت کیے جارہے ہیں۔ سیمینارکے صدرنشیں سفیر منیراکرم نے اپنے اختتامی کلمات میں کہاکہ ٹیکنالوجی سیکیورٹی اور ترقی میں اضافے کا ایک بڑا آلہ ہے اور رہے گی۔

اکیسویں صدی میں، ٹیکنالوجیکل ترقی کی رفتار غیرمعمولی ہے۔ تبدیلی کا عمل بڑی تیزی سے کل کے افسانوی خیالات کو آج کی حقیقت میں تبدیل کررہا ہے۔