تحریر : آصف خورشید رانا ترکی میں فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد اور صدر کا منصط سنبھالنے کے بعد ترک صدر کا پاکستان میں یہ پہلا دورہ ہے۔اپنے اس دورے میں ترک صدر پارلیمنٹ سے بھی خطاب کریں گے ۔ صدر کی حیثیت سے پاکستان پارلیمنٹ سے یہ ان کا پہلا خطاب ہو گا اس سے قبل رجب طیب اردوان2009 اور 2012میںوزیر اعظم کی حیثیت سے دو مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کر چکے ہیں ۔پاکستان اور ترکی جغرافیائی لحاظ سے دو الگ الگ ریاستیں ہیں لیکن عقیدے ، ثقافت ، تاریخ اور رویات کے رشتوں میں جڑے عوام ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں ۔قیام پاکستان سے قبل ہی برصغیر کے مسلمانوں نے ترک عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ اس وقت کر دیا تھا جب استعماری قوتیں سلطنت عثمانیہ کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی تھیں ان قوتوں میں برطانیہ پیش پیش تھاجو ہندوستان پر بھی قابض تھا ۔ایسے وقت میں جب ہندوستان کے مسلمان اپنے لیے علیحدہ ملک کا مطالبہ کر رہے تھے ۔اسی دوران پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ نے برطانیہ اور اتحادیوں کے مقابلے میں جرمنی کا ساتھ دیا ۔ بیسویں صدی کی اس ہولناک خونریزی میں برطانیہ اور اس کے اتحادی فاتح رہے۔
جنگ سے قبل برطانیہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ خلافت عثمانیہ برقرار رکھی جائے گی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نہیں چھیڑا جائے گا تاہم جنگ میں کامیاب ہونے کے بعد برطانیہ نے خلاف ورزی کی جس سے ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت عثمانیہ کے حق میں ”تحریک خلافت ” کا آغاز کیا جس کے بعد تحریک ترک موالات اور بعد ازاں تحریک ہجرت بھی شروع کی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی دونوں ممالک کی عوام اخوت ، ثقافت اور بھائی چارہ کے رشتے میں جڑے رہے ۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان اور ترکی علاقائی تعاون برائے ترقی کے رکن بنے جس سے دوطرفہ تعلقات میں مزید مضبوطی آگئی ۔ترکی اور پاکستان کے مسائل میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے ۔مسئلہ کشمیر کی طرح ترکی کو مسئلہ قبرص کا سامنا ہے جس میں پاکستان ہمیشہ سے ترکی کے موقف کی حمایت کرتا آیا ہے دوسری جانب ترکی بھی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف پر ہمیشہ ساتھ رہا ہے ۔پاکستان کی طرح ترکی بھی دہشت گردی کا شکاررہا ہے۔
نواز شریف کے دور حکومت میں پاک ترک تعلقات میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے ۔ترکی کے صدررجب طیب اردوان کا حالیہ دو روزہ دورہ بھی دونوں ممالک کے درمیان مضبوط قربتوں کا عکاس ہے۔ اس دورے میں ان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی شامل تھا اس موقع پر وفاقی دارالحکومت اور صوبائی دارالحکومت لاہور جہاں صدر ترکی نے دورہ کرنا تھاکودلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ جس طرح پاک ترکی دوستی لازوال ہے اسی طرح ان کا پاکستان پہنچنے پر استقبال بھی بے مثال کیا گیا۔
Erdogan and Mamnoon Hussain
اپنے دورے کے دوران صدر ترکی نے صدر پاکستان ممنون حسین سے طویل ملاقات کی جس میںدوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے ، افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مشترکہ کوششوں اور دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے مل کر کوششیں کرنے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا ۔ ترک صدر نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کے پاکستانی موقف کی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت پر بھی تشویش کا اظہار کیا ۔اس موقع پرممنون حسین نے نیوکلئیر سپلائر گروپ میں پاکستان کی شمولیت کے معاملہ پر ترکی کی حمایت کا شکریہ ادا کیا اور واضح کیا کہ قبرص کے مسئلہ پر پاکستان اپنی غیر مشروط حمایت جاری رکھے گا ۔ترک صدر نے پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے منصوبے پر پاکستان کو مبارکباد دیتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ یہ عالمی امن و استحکام کا ذریعہ بنے گا۔ رجب طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے مدلل خطاب کیا جو دونوں ممالک کی دوستی کا آئینہ دار تھا۔اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کو دہشت گردی جیسے یکساں مسائل کا سامنا ہے القاعدہ داعش اور دیگر تنظیمیں ترکی پاکستان سمیت تمام عالم اسلام اور دنیا کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔
دہشت گرد مسلمان ممالک میں نفاق کے بیج بو رہے ہیںرجب طیب نے واضح کیا کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں صرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور دین اسلام کے خلاف جنگ کا آلہ کار بنی ہوئی ہیں ۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو مغربی ممالک کی جانب سے بھی مدد مل رہی ہے ۔مسلمانوں کے خون بہانے کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے ۔ان قاتل تنظیموں کو ہمیں مختصر مدت میں مسلم امہ اور دنیا بھر سے کاٹ پھینکنا ہو گا ورنہ عالم اسلام میں امن و اتشی کا خواب ادھورا رہے گے دہشت گرد دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے دو سال قبل صوما سانحہ میں پاکستان کی جانب سے ایک روزہ سوگ پر بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ترکی نے بھی اے پی ایس کے سانحہ میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا جو اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے ایک جیسے جذبات رکھتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے ترکی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاک ترک سرمایہ کاری گول میز کانفرنس میں بھی پاکستان کے وزیر اعظم نے ترکی کو پاک چائنہ اقتصادری راہداری میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ترکی کے سرمایہ کار اس بڑے منصوبے میں موجود مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں۔ترکی کے سرمایہ کاروں کو مزید سہولتیں دی جائیں گی۔ترک صدر نے اس پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاک ترک تجارت کو ایک ارب ڈالر کے حجم تک لے جانے کے خواہشمند ہیں۔ ترک صدر کا یہ دورہ بلا شبہ ہر طرح سے یادگار رہا ہے ۔ ترک صدر نے بھی اس دورے کے متعلق اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے اسے گھر سے دور اپنے گھر سے تشبیہ دی ہے ۔ پاکستان کے عوام بھی ترک صدر کے دورے کو محبت اور الفت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان اور ترکی دو ریاستیں ہیں لیکن ان کی عوام کے دل آپس میں دھڑکتے ہیں اور یہ ایک قوم کی طرح ہیں۔