تحریر : ڈاکٹر قاسم الرشید طاہر بے روز گاری پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے، بے روز گار شخص کو کہا جاتا ہے جو کوئی کام کرنا چاہتا ہو اور اس کی اہلیت بھی رکھتا ہو لیکن اسے کام نہ ملے۔ پاکستان میں اس وقت 25 فیصد سے زائد افراد بے روزگار ہیں اور بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے زائد سے ہیں ۔بے روز گار افراد ملک میں اپنے اور دوسروں کے لیے مختلف سماجی و معاشی مسائل پیدا کرتے ہیں روزگار کی عدم دستیابی کی کئی وجوہات ہیں۔
بے روز گاری کی سب سے اہم وجہ کا تعلق شعبہ زراعت سے ہیں زراعت پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہے قومی آمدنی میں اس کا حصہ 30فیصد ہیں اور ملک کے 48فیصد عوام اس شعبہ سے براہ راست اور بالاواسطہ طور پر روزگار حاصل کر رہے ہیں معشیت کا اتنا بڑا شعبہ ہونے کے لحاظ سے یہاں مزید بہت سے لوگوں کی کھپت ہو سکتی ہیں لیکن یہ سیکٹر پسماندگی کا شکار ہے اس سیکٹر میں بے روز گاری دو اطراف سے پائی جاتی ہے ایک تو زراعت کے میدان میں جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کے استعمال کی وجہ سے لوگوںکی بڑی تعداد کی اب ضرورت باقی نہیں رہی ۔دوسرا یہ کہ زراعت کے میدان میں کھاد ،زرعی دوائیں احچے بیج ،زرعی تعلیم و زرعی اصلاحت کی عدم موجودگی میں یہ شعبہ بہت پیچے ہے۔بے روز گار لوگوں کی یہاں کھپت نہیں ہو رہی۔
شعبہ صنعت معشیت کا دوسرابڑا سیکٹر ہے قومی آمدنی میں اس کا حصہ تقریبان40فیصد ہے شعبہ صعنت کو بھی ملکی آبادی کے ایک بڑے حصے کو روزگار فراہم کرنا چاہیے لیکن ہماری صنعتیں بہت پسماندہ ہیں یہ بات بھی دُرست ہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میںکل 34کارخانے تھے اب ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن اگر ہم معاشی میدان میں ترقی کرنے والے ممالک جیسے جاپان۔کوریا۔چین۔ہانگ کانگ۔تائیوان۔سنگاپور۔انڈونشیا۔ملائشیا ۔بھارت سے موازنہ کریں تو ہم ان کے مقابلے میں اس میدان میں بہت پھیچے ہیںملک میں ہزاروں صنعتی کارخانے بند پڑے ہیں مختلف وجوہات کی بنا پر نئی فرمیں اور صنعتیں لگنے کی بجائے چلتے ہوئے کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیںبے روزگاری کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ہماری زرعی اور صنعتی اشیاء کی بین الاقوامی منڈیوں میں مانگ بہت کم ہے کیونکہ پاکستانی اشیاء ترقی یافتہ ممالک کی اشیاء کے مقابلے میں غیر معیاری ہیں اندرون ملک میں تیار ہونے والی اشیاء کی ملک اور بیرون ممالک میں طلب کم ہونے کی وجہ سے ان سے وابستہ صنعتوں اور اداروں میں بھی وسعت نہیں آرہی۔چنانچہ زرعی اور صنعتی شعبوں سمیت دیگر سیکٹرز میں لوگوں کو روز گار نہ ملنے کی وجہ سے بے روزگاری ہے۔پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم میں جہاں کئی اور خامیاں پائی جاتی ہیں وہاں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس نظام میں طلبہ وطالبات کو آرٹس اور جنرل ایجوکشن تو دی جا رہی ہے لیکن فنی اور ووکیشنل تعلیم کی کمی ہے کیوں کہ ملک میں ٹیکنیکل تعلیم دینے والے ضرورت سے بہت کم ہیں۔
Agriculture in Pakistan
آرٹس کی تعلیم حاصل کرنے والے ڈگریاں تو لے لیتے ہیں لیکن عملی زندگی میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بے روز گار رہتے ہیں اور فنی تعلیم کے بغیر اپنا کوئی کام بھی نہیں کر سکتے۔پاکستان میں اکثر کاروباری حضرات کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ ہیں ا نہیں اپنا کاروبار چلانے کے متعلق پوری آہی نہیں جس کی وجہ سے اکثر ان کے کاروبار دیوالیہ ہو جاتے ہیں ملک کی صنتعوں کا یہ حال ہے کہ کچھ ما ہ پہلے فیس بُک پر ایک چینی تاجر کا بیان تھا کہ میرے پاس پاکستانی تاجر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہماری مصنوعات پر برانڈڈ لیبیل پرانٹ کر دیے کر یں تا کہ ہماری مصنوعات پاکستان میں ہی راتو ں رات فروخت ہو جائے یہ حال ہماری ناقص مصنوعات کا منہ بولتا ثبوت ہیں اس وقت ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے شرح افزائش 2.7فیصد ہے جو کہ بہت زیادہ ہے جبکہ ملکی وسائل محدود ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ملکی معیشعت کے مختلف شعبے نئے آنے والے لوگوں کو روزگار میہا کرنے سے محروم ہے پاکستان کی اکثر صنعتوں میں مزدور مالک تعلقات مایوس کن ہیں مزدورں کو لیبر قوانین سے پوری آگاہی نہیں ۔وہ اپنا حق لینا اور مناسب انداز میں اپنی خدمات دینا نہیں جانتے یہی وجہ ہے کہ کبھی مالکان بغیر وجہ کے اپنے ملازمین کو فارغ کر دیتے ہیں اور کبھی مزدور طبقہ بلاوجہ کارخانوں میں ہڑتالیں کر کے کروڑں بلکہ اربوں کا نقصان کر تے ہیں ایسے عوامل بھی روزگاری کو بڑھاتے ہیں پاکستان کے5فیصد لوگ وہ ہے جو ملکی حالات کے پیش نظر اپنا سرمایہ غیر ملکوں میں لگا کر اپنی آمدن میں وہیں جمع کر رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک پاکستان ایک غیر محفوظ ملک ہے پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور ان کے عزیزو اقراب کے کاروبار بھی اکثر ودسروں ممالک میں ہیں اس کی کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام تسلی بخش نہیں ہیں براہ راست ٹیکسوں کی بجائے بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے جس سے وہ لوگ اپنے کاروبار کو پاکستان کی نسبت زیادہ محفوظ اور زیادہ آمدن کا زریعہ سمجھتے ہیں اگر یہی لوگ پاکستان میں اپنی انڈسٹریز لگے تو ملک میں بے روزگاروں کی کافی حد تک کمی آجائے گی پاکستان کی اکثر آبادی پڑھ لکھ کر سرکاریاں نوکریوں کا خواب دھکتے ہیں لیکن رشوت نہ ہونے کے باعث وہ لوگ مایوس ہو کر دیرئے غیر کا رُخ کر تے ہیں اور کئی نوکری اور ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے ڈاکوں کے روپ میں جلوہ گرہ ہوتے ہیں پاکستان بننے سے اب تک ہمارے حکمران اکثر ادوارمیں imfسے قرض لیتے رہے اورIMFکی ہدایت کے مطابق ملک معاشی وگیرہ معاشی پالیساں ترتیب دیتے رہے جیسا کہ ڈائون سائزنگ کے تحت مختلف محکموں سے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کو جبری ریٹائر کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کافی بے روزگاری پھلاتی ہیں ملک میں خود انحصاری نہیں ہے۔
ہم اپنے ملک کی اشیاء استعمال کر نے کی بجائے دوسرے ملک کی درآمدی اشیاء کو خریدنا پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملکی فرموں کی بنی ہوئی اشیاء بن بکے رہ جاتی ہے اور ان اشیاء کو بنانے والے کارخانے کم پیدوار پیدا کر تے ہیں جس کی وجہ سے ان کارخانوں میں کام کرنے والے افراد بھی بے روز گار ہو جاتے ہیں IMFہولڈر بنک امریکہ،فرانس سمیت دیگر ممالک سے لیا ہواقرض سود سمیت ہر سال بجٹ میں میں بہت بڑی رقم مختص کی جاتی ہے جس کیوجہ سے ترقیاتی پروگراموںکے لیے بہت کم فنڈ بیچتے ہیں اگر ملک میں سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبے شروع نہیں ہو گے تو لوگوں کو روزگار کہاں سے ملے گا ،یہی وجہ ہے کہ ملک اس وقت سخت بے روزگاری کے بحران میں ہے میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک میں اس بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔۔۔۔۔۔آمین