تحریر : سید توقیر حسین زیدی پاک امریکہ تعلقات کس نہج پر ہیں۔ لیکن پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ امریکہ ا ور پاکستان کے تعلقات خراب ہوئے ہیں۔ یہ نرم گرم تعلقات ماضی میں بھی چلتے رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو امداد بھی دی ہے اور پاکستان پر پابندیاں بھی لگائی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ بھارت کے بہت قریب ہو چکا ہے۔ کیا بھارت اور امریکہ کی قربت نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کی ہے یا پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں بھارت وجہ نہیں ہے۔کیا چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کا باعث ہے۔ امریکہ کا ایک نیم اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کے دورہ پر ہے۔ یہ نیم اعلیٰ سطحی وفد پاک امریکہ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے آیا ہے۔ یہ دورہ ایسے موقع پر آیا ہے جب امریکہ پاکستان کو ایف سولہ دینے سے انکار کر چکا ہے۔ جب امریکہ بھارت کو نیوکلیر سپلائر گروپ کا ممبر بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کے پاس اب پاکستان کو دینے کے لئے کیا ہے۔ یہ نیم اعلیٰ سطحی وفد اب پاکستان کو کیا کہہ رہا ہے۔
ایک سوچ تو یہی ہے کہ حسب روائت دلاسہ دے رہا ہے۔لیکن سرتاج عزیز نے اس نیم اعلیٰ سطحی وفد کی آمد سے قبل ہی پریس کانفرنس کر کے واضح کر دیا تھا کہ دلاسہ نہیں چلے گا۔ یہ شائد پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے کبھی پاکستان کی اتنی جرات نہیں ہوئی تھی کہ کسی بھی نیم اعلیٰ امریکی عہدیدار کی آمد سے قبل کوئی غیر شائستہ استقبالی پریس کانفرنس کر دے۔ یہ تو امریکہ کا وطیرہ رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ کسی نہ کسی موقع پر پاکستان کے خلاف غیر شائستہ ریمارکس دئے ہیں تا کہ پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر رکھا جا سکے۔ لیکن اس بار شائد پاکستان بھی کوئی فیصلہ کر چکا ہے۔ امریکہ پیسے بند کر چکا ہے۔ ایف سولہ دے نہیں رہا۔ سب تعاون بھارت کے لئے ہے۔ ایسے میں شائد پاکستان کو بھی امریکہ میں زیادہ دلچسپی نظر نہیں آرہی۔
ایک بات تو واضح ہے کہ اب یہ امریکہ کا پاکستان نہیں ہے۔ بلکہ چین کا پاکستان ہے۔ چین کی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کے بعد پاکستان اب کسی ڈبل گیم کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ شکر ہے کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے چین کے ساتھ ڈبل گیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ پر ایک الزام یہ بھی ہے اس نے امریکہ کے ساتھ ڈبل گیم کر کے امریکہ کا اعتماد کھو دیا تھا۔ لیکن جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان کے حوالہ سے پالیسی اختلافات نائن الیون سے بھی قبل کے ہیں۔ امریکہ جب روس کے جانے کے بعد افغانستان کو ادھورا چھوڑ کر چلا گیا تھا تب سے پاک امریکہ تعلقات افغانستان کے حوالہ سے کشیدہ ہو چکے تھے۔ طالبان پر بھی اختلافات رہے اور اب بھی پالیسی کا یہ اختلافات اپنی جگہ موجود ہے۔ پالیسی کا یہ اختلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے دوران بھی قائم رہا۔ نہ امریکی اسٹبلشمنٹ نے کسی بھی موقع پر پاکستان کی اسٹبلشمنت پر اعتبار کیا اور نہ ہی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے امریکہ پر کسی بھی لمحہ پر اعتبار کیا۔ یہ بد اعتمادی ہر لمحہ رہی۔ اسی بد اعتمادی نے ڈو مور کو جنم دیا۔
Drone Attack
آج پاکستان نہیں امریکہ مشکل میں ہے۔ پہلے پاکستان کی یہ مشکل تھی کہ وہ اپنے تمام انڈے امریکہ کی گود میں رکھ چکا تھا۔ اور پاکستان کے پاس امریکہ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ چین بھی امریکہ کو للکارنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ جب پاکستان چین سے بات کرتا تھا تو چین بھی کہتا تھا کہ برداشت کریں۔ اپنے معاملات ٹھیک کریں۔ چین خود امریکہ کے ساتھ بگاڑنے کے لئے تیار نہیں تھا۔لیکن شائد آج ایسا نہیں ہے۔ اب چین بھی عالمی سطح پر اپنی جگہ بنانے کے لئے تیار ہے۔شائد چین کی بدلتی پالیسی نے پاکستان کے لئے بند دروازے کھولے ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں عدم توازن کو واضح کرنے کا موقع دیا ہے۔ شائد اب پاکستان بھی امریکہ کے ساتھ اگر برابری نہیں تو کم ازکم احترام کی سطح پر تعلقات ضرور چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کے ساتھ مکمل دروازے بند کر سکتا ہے۔ شائد نہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو نیم اعلیٰ سطحی وفد کو جلدی میں نہ بھیجا جا تا۔ ایسے میں سفارتکاری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بات چیت بھی جاری رکھی جائے اور اپنی اپنی پالیسی بھی جاری رکھی جائے۔ امریکہ بھی اپنی پالیسی جاری رکھے گا۔ اور پاکستان کی اسٹبلشمنٹ بھی اپنی پالیسی جا ری رکھے گی۔
اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ کے اس نیم اعلیٰ سطحی وفد کے ہنگامی دورہ پاکستان سے کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا۔ دونوں ممالک اپنی اپنی پالیسی جاری رکھیں گے۔ دونوں ممالک کے لئے اپنی اپنی پوزیشن سے واپسی ممکن نہیں۔ امریکہ اب بھارت کو نہیں چھوڑ سکتا۔ امریکہ گوادر اور پاک چین اقتصادی راہداری پر اپنے تحفظات ختم نہیں کر سکتا۔ اسی لئے چین کی وزات خارجہ نے بھی اس نیم اعلیٰ سطحی وفد کے آنے سے قبل پاکستان کے حق میں بیان داغ دیا ہے۔ شائد امریکہ کو پاکستان کی دہشت گردی کے جنگ میں تعاون اب حاصل نہیں رہے گا۔
ڈرون گرانے کی جو اجازت پرویز مشرف دور میں دی گئی تھی۔ وہ بھی شائد ختم کر دی گئی۔ امریکہ کو پاکستان سے پیغام مل گیا ہے۔ لیکن شائد امریکہ کے پاس پاکستان کے لئے کچھ نہیں۔ اور پاکستان کے پاس امریکہ کے لئے کچھ نہیں۔ نائن الیون کو تعاون کی شروع ہونے والی یہ داستان اب اپنے اختتام کو ہے۔ اگر امریکہ افغانستان میں پھنسا نہ ہو تا تو وہ پاکستان پر پابندیاں لگا دیتا۔ لیکن شائد ابھی ایسا نہیں ہو سکتا۔ بہر حال یہ نیم اعلیٰ سطحی وفد نہ کچھ لیکر آیا تھا اور نہ کچھ لیکر گیاہے۔