اردو لفظ ترکی زبان سے ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں۔ اس زبان کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان میں کئی طرز کی عوام آتی تھی تو آپس میں ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے لیے اپنی آبائی زبان کے الفاط بھی استعمال کرتے تھے اور یوں مقامی لوگوں کے الفاظ بھی اپنی زبان میں داخل کرتے رہتے۔ اور پھر ایک بڑی زبان کا وقوع ہوا جو آج دنیا کی تیسری بڑی زبان مانی جاتی ہے۔ زبانوں میں اسکو وہی حیثیت حاصل ہے جو عمارتوں میں تاج محل کو ہے۔اردو زبان کے ارتقا کے بارے میں دیکھا جائے تو اِ س کو اولیاء کی زبان کہاجاتا ہے۔ اردو کے وقوع کے متعلق مختلف لوگوں نے مختلف نظریات پیش کیے اسی زبان کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کہا تھاکہ ”اردوزبان قرآن کے حروف کی زبان ہے”۔پاکستان میں1973 کے آئین کے تحت شق 251 کے مطابق اردو کو دفتری زبان بنانے کا اعلان ہوا مگر افسوس صد افسوس کہ آج تک اس حکم پر عملدرآمد نہ کیا جا سکا اور نہ ہی کسی حکمران نے اردو کی اہمیت و افادیت کو سمجھا-بہت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے اپنی زبان کو چھوڑ کر انگریزوں کی زبان کو جاننا اور سمجھنا ضروی قرار دیا- کہ شائد انگزیزی زبان پڑھ، لکھ کر ہمارا معاشرہ ترقی کی راہوں پہ گامزن ہو گا- لیکن ہم یہ بھول گئے کہ کسی قوم کی ترقی کا راز اس ملک کی زبان پر منحصر ہے۔
نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ نوجوان طبقہ قوم و ملک کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ ملک و قوم کی تقدیر انہی ستاروں سے منسلک ہوتی ہے۔ مستقبل میں انہی نوجوانوں نے ملک کی بھاگ دوڑسنبھالنی ہوتی ہے۔ ملک کو کس طرح صحیح سمت کی طرف لے جانا ہے اورکیسے ترقی کی راہوں پہ گامزن کرنا ہے اس کے لئے نوجوانوں کی مثبت راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریزوں کی غلامی کے نتیجے میں ہمارے نوجوان اپنی قومی زبان سے کوسوں دور ہو گئے۔ نوجوانوں پر انگریزوں کی زبان کو زبردستی مسلط کر کے ایک الگ راستے پہ لایا گیا ہے۔ یہ انگریزوں کی ایک چال تھی کہ جس کو ہم آج تک سمجھ نہیں سکے۔ انگریز کا مقصد یہی ہے کہ دنیا بھر میں ہماری انگریزی زبان کا چرچا ہو۔ انہی سازشوں کی نظر ہمارے حکمران بھی مکار انگریز کی چال میں پھنس گے اور آج تک انگریزی کا یہ طوق ہمارے نوجوانوں کے گلے میں پھنس کر رہ گیا ہے اور ہم سر پر ہاتھ رکھ کر سوچ رہے ہیں کہ آخر ہمارے نوجوانوں میں کون سی کمی ہے کہ اتنی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی ہمارے نوجوان وہ کارنامے نہیں دکھا پاتے کہ جو باقی ممالک کے نوجوان دکھا رہے ہیں۔
آجکل کے دور میں ہمارے بچوں کو اردو زبان کی بہت ضرورت ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے نوجوان جو کالجوں اور جامعات میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی اکثریت بھی اردو زبان سے واقف نہیں ۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ وہی زبان اثر رکہتی ہے جو انسان اپنی قومی زبان میں حاصل کرے۔ اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ طالبعلم کو غیر زبان سیکھنے میں جو وقت برباد کرنا پڑتا ہے وہ بچ جاتا ہے۔ اردو سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر رہی ہے۔ غیروں کی زبان میں اس قدر جکڑ دیا گیا ہے کہ اردو بولنا نسلِ نو کے لئے کسی محاذ سے کم نہیں رہا۔
ہمارے حکمران ہمیشہ دوسرے ممالک کی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن وہ یہ بات نہ سمجھ پائے کہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں وہی ممالک کھڑے ہیں کہ جنہوں نے اپنی قومی زبان کو اوڑہنا بچھونا بنایا ۔جب منہ میں زبان اپنی ہو اور الفاظ غیروں کے ہوں تو ملکی ترقی کی امید رکھنا بے سود ہے-آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکمران عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے اردو کا نفاذ کر کے نئی نسل کو اپنی قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیں تاکہ مستقبل کے یہ درخشاں ستارے اپنے ملک کا نام روشن کریں-یہی وقت ہے سنبھل جانے کا، اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم سے آراستہ کرنے کا انہیں صحیح تعلیم سوچ و فکر دینے کا۔۔ سوچیے اگر یہ زبان نہ رہی تو ہمارے اولیاء کرام شعرا ء کرام جیسے کئی مصنفوں کی لکھی ہوئی کتابیں کون پڑھے گا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق ، مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ اقبال ، مرزا غالب مولانا حالی اور سر سید احمد خان جیسے تاریخی ہیروں کو کون یاد رکھے گا۔۔۔؟؟؟؟
اگر ملک پاکستان کی ترقی کی بات کی جائے تو پاکستان صرف اور صرف اپنی قومی زبان میں ہی ترقی کر سکتا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتا ہے جس کی نمایاں مثال چین ہے۔کہ جس نے اپنی زبان کو ہمیشہ فوقیت دی اور آج ایک قوت بنا ہوا ہے-اگر اردو زبان کی گرتی ہوئی صورتحال کو روکا نہ گیا ، اردو زبان سے مزید رو گردانی کی گئی تو پاکستان کی یہ حالت ہو جائے گی کہ ہم اپنے شاندار ماضی سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ ہماری تاریخ، تہذیب اور تربیت کی روایت بھی ختم ہو جائے گی۔
آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت پر دباو ڈالا جائے کہ اردو کی کتابیں داخل نصاب کریں، سرکاری اسکولوں میں اردو پڑھانے والے اردو پڑھائیں اور تمام اسکولوں اور کالجوں میں اردو لازمی قرار دی جاے۔ سرکاری نوکریوں میں اردو کی حصہ داری ہو، سرکاری محکمات میں دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی درخواستیں مہیا کرائی جائیں اور ساتھ ہی مترجمین بھی متعین کئے جائیں تاکہ اردو کے حاملین کے روزگار میں اضافہ ہو، ساتھ ہی ایسی اکیڈمیاں قائم کی جائیں جو نئے اور مفید لٹریچر کو اردو زبان میں منتقل کرسکیں اور علمی و فنی اصطلاحات کے لئے اردو میں الفاظ وضع کئے جائیں تاکہ اردو زبان مسلسل ترقی کی منازل طے کرتی رہے۔یاد رکھیںاگر تہذیب کو بچانا ہے تو اردو زبان کا ساتھ کبھی مت چھوڑیے اردو کو زندہ رکھیے یہ ہمارا قیمتی اثاثہ اور ہمارا فخر ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے