اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان سے امریکی شہری میتھیو بیرٹ کو دوسری مرتبہ ملک بدر کر دیا گیا ہے۔
’بلیک لسٹ‘ قرار دیئے گئے میتھیو بریٹ رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی ’بلیک لسٹ‘ میں شامل افراد کے ملک میں داخل ہونے پر پابندی ہوتی ہے۔
تاہم اس فہرست میں موجودگی کے باوجود میتھیو کو ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانے سے نا صرف ویزہ جاری کر دیا گیا بلکہ جب وہ اسلام آباد پہنچے تو امیگریشن حکام کی طرف سے بھی اُنھیں نہیں روکا گیا اور ضروری امیگریشن کارروائی کے بعد میتھیو وفاقی دارالحکومت میں داخل ہو گئے۔
لیکن بلیک لسٹ قرار دیئے گئے امریکی شہری کی پاکستان آمد کی خبروں کا وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نوٹس لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا حکم دیا تھا، جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے ’ایف آئی اے‘ نے میتھیو کو اسلام آباد سے تحویل میں لے لیا تھا۔
میتھیو کو اس سے قبل 2011ء میں ملک بدر کر کے بلیک لسٹ قرار دے دیا گیا تھا، حکام کے مطابق صوبہ پنجاب کے علاقے فتح جنگ میں ایک حساس علاقے میں قابل اعتراض سرگرمیوں پر میتھیو کا ویزہ منسوخ کر کے اُنھیں ملک بدر کیا گیا تھا۔
تاہم میتھیو کی قابل اعتراض سرگرمیوں کی مزید وضاحت نہیں کی گئی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بلیک لسٹ قرار دیئے گئے امریکی شہری کی دوبارہ پاکستان میں داخلے کی تحقیقات کا حکم بھی دیا اور اس دوران نا صرف اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر امیگریشن کے عملے سے پوچھ گچھ کی گئی بلکہ ہیوسٹن میں پاکستانی قونصل خانے کے ویزہ سیکشن کے عہدیداروں سے بھی سوال کیے گئے۔
قونصل خانے کے متعلقہ عہدیدار کے مطابق میتھیو کو اس بنا پر ویزہ جاری کیا گیا کہ اُن کا نام سسٹم میں ’بلیک لسٹ‘ میں شامل افراد کے طور پر ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔
لیکن وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ میتھیو بریٹ کا ویزہ فارم مکمل نہیں تھا اور اس کے باوجود اُنھیں ویزہ جاری کیا گیا۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) امجد شعیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب یہ ثابت ہو گیا کہ میتھیو جاسوسی میں ملوث نہیں تو پھر اُن کی ملک بدری کا فیصلہ درست ہے۔
واضح رہے کہ وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ اُنھیں متعلقہ اداروں کی طرف سے جو رپورٹ پیش کی گئی اُس کے مطابق میتھیو پاکستان میں جاسوسی کی سرگرمیوں ملوث نہیں تھا اور تحقیقات کے بعد حکومت نے اُنھیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیر داخلہ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آئندہ بلیک لسٹ میں موجود کوئی بھی شخص پاکستان میں داخل نا ہو سکے۔ جب کہ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ویزے کے اجرا اور امیگریشن کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔