بچے جنت کا پھول ہوتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور آپ نے ہمیشہ بچوں سے پیار کرنے اور شفقت سے پیش آنے کی تلقین کی ہے۔بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا بھی ظلم ہے پاکستان میں زیادہ تر افراد بچوں کو تعلیم دالوانے کی بجائے محنت مزدوری کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اور جس کی وجہ سے معاشرے میں جرائم میں اضافہ ہورہاہے والدین بچوں کو سکول تو بھیج دیں لیکن غربت آڑے آجاتی ہے گھر کا نظام چلانے کے لیے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں ہی محنت مزدوری پر اس عمر میں لگا دیا جاتا ہے۔
یہ وہ عمر ہے جس میں بچوں کے نرم و نازک ہاتھوں میں کھیلونے اور قلم ہونا چاہیے ان نازک پھولوں کے ہاتھوں میں ہوٹلوں میں کھانے اورچائے کے کپ والے برتن اور ورکشاپوں میں پانے پیچ کس اور ٹائر کولنے کے اوزار لیے یہ ننھے پھول سردی سے کانپتے ہاتھوں سے اپنے کام میں مشغول نظر آتے ہیں اسی طرح آپ کو بسوں گاڑیوں اور اڈوں پر بچوں بسکٹ ٹافی اور اس طرح کی چھوٹی موٹی اشیاء بیچتے نظر آتے ہو نگے۔ ان محنت مزدوری کرتے ننھے پھولوں کے لیے کوئی سیفٹی پلان موجود نہیں ہے۔ ان بچوں سے دن رات کام کروایا جاتا ہے اور ان کو بدلے میں اجرت بھی دو سے چار ہزار تک بمشکل ملتی ہے۔
اور سب سے شرم کی بات تو یہ ہے کہ جن ورکشاپوں ہوٹلوں یا دیگر مقامات پر جہاں بچے کام کرتے ہے بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بچوں کی بڑی تعداد محنت مزدوری کے دوران جنسی تشدد کا شکار ہوجاتی ہے۔ کم ہی بچے اس جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد گھر والوں کو بتاتے ہیں۔ زیادہ تر تو خاموشی سے اس تشدد کا نشانہ بنتے رہتے ہیں کیونکہ ان کوڈرا ہی اتنا دیا جاتا ہے کہ وہ بتانے سے کہ کتراتے ہیں۔ اور اکثر اوقات اس طرح کے کیسز بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ گھر والے چند روپے لیے کر خاموش ہو جاتے ہیں اور تھانے میں کیس رجسٹر ہی نہیں کروایا جاتا اور زیادہ لوگ اپنی عزت کی خاطر بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔تشدد کے حوالے سے کئی بار ایسے ایسے کیسز سامنے آتے ہیں کہ انسان سوچ کر ہی پاگل ہو جائے۔ اسی طرح گھروں میں کا کاج کے لیے بچوں اور بچیوں کو دیہاتوں سے کسی نہ کسی وساطت سے شہروں میں لیے جایا جاتا ہے۔
Child Torture
آپ کے علم یہ بات نہ ہوئی تو آپ بھی سن کر حیران ہو گے کہ اکشر ان کام کرنے والے بچے یا بچیوں کے گھر والوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا جگر گوشہ کہاں اور کس حال میں کام کر رہا ہے سالوں بعد چند دنوں یا گھنٹوں کے لیے ملاقات ہو پاتی ہے۔ اور ہر ماہ ان کے گھروں میں دو چار ہزار اجرت بھیج دی جاتی ہے۔ اور گھروں میں کام کرنے والے بے چارے معصوم جنہوں نے تو ابھی کیھلنا تھا۔ ان کے تو بچپن کو ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اور جہاں پر یہ ننھے پھول کام کرتے ہیں ان کا وریہ بھی ایسا برا ہوتا ہے نہ تو ٹھیک طرح کھانا ملتا ہے۔
نہ کپڑے اور نہ چند لمحے کی میٹھی نیند کے لیے کوئی مناسب جگہہ۔اور ہر وقت کام کام اور اوپر سے بے پناہ تشدد اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ صرف چند ماہ کہ دوران ہی گھروں میں کام کرنے والے بچوں اور بچیوں پر اتنا وحشانہ تشدد کیا گیا کہ ننھے معصوم پھول اور کلیاں تشدد برداشت نہ کر سکے اوران کو اپنی جانوں سے ہاتھ دونا پڑے ابھی کراچی لاہور اور ملتان کے واقعات بھی آپ کے سامنے ہیں جس میں جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ جنسی تشدد کے بھی کیسز کھل کر سامنے آئے ہیں بہت سی این جی اووز بچوں کے حوالے سے کام کر رہی ہیں اور زیادہ تر تو کاغذی کاروائی یعنی سیمینارز وغیرہ تک محدود ہیں اور چند ایک ہی ہیں جو معاشرے میں ہونے والے اس ظلم عظیم کے خلاف بہت بلند عزائم کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اکثر ملازمین بچوں کے والدین سے بات ہوتی ہے تووالدین کہتے ہیں کہ ہم غربت کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ اپنے جگر گوشوں کو اتنی چھوٹی سی عمر میں کام پر بھیجنا پڑتا ہے ۔اور کچھ والدین کہتے ہیں کہ ہم بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ہاں اس حوالے سے ہم عوام اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ان کی مدد کر دے جتنا ہم کر سکتے ہیں ایک یا دو بچوں کے تعلیم کے اخراجات برداشت کر لیے اس طرح ان غریب والدین کا بوجھ بھی ہلکا ہو گا اور ہمیں بھی دلی سکون ملے گا اور وطن عظیم کو بھی اس سے فاہدہ پہنچے گا اگر ہم اس میں اپنا رول ادا کریں گے تو غریب اور مستحق بچوں کی مدد اور رہنمائی کریں تاکہ وہ بھی پڑھ لکھ کر وطن عظیم کے لیے اپنا رول ادا کر سکے گے۔
حکومت کو اس اہم اور سنگین مسئلے کی طرف بھر پور انداز میں قانون سازی اور حکمت عملی واضع کرنا ہو گی۔ تا کہ یہ ننھے پھول معاشرے میں اپنا وزن محسوس کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں نہ کہ احساس محرومی کا شکار ہو کرکوئی غلط راہ اپنا لیے بچوں سے جبری مشقت کے حوالے سے چھ ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانہ اور اس طرح دیگر قوانین بھی موجود ہیں بس کمی ہے تو ان پر عمل درآمد کی اور سولہ سال تک کہ بچوں سے جبری مشقت کے اس قانون پر سختی سے عمل ہونا چاہیے۔ اس وقت جو گھریلو ملازمین (بچوں) پر بڑھتے ہوئے تشدد اور ان کی اموات کے حوالے سے قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایسے قانون بنائے ان گھریلو ملازم بچوں کی سیفٹی کے لیے باعمل قانون ہو یا پھر بچوں کے گھروں میں کام کرنے پر پابندی لگا دی جائے اور اس پر سختی سے عمل کروایا جائے۔