پاکستان میں وائرس کے حقیقی کیسز کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں

Coronavirus Treatment Unit

Coronavirus Treatment Unit

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں ماہرین نے نئے کورونا وائرس کے نسبتا کم سرکاری اعداد و شمار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حقیقت میں یہ کیسز کہیں زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ٹیسٹنگ کے عمل کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان میں پیر تیس مارچ کی صبح کے اعداد و شمار کے مطابق نئے کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی تعداد سولہ سو کے قریب بتائی جا رہی ہے جب کہ سولہ افراد کووڈ انیس کے مرض کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق ٹاسک فورس کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عطا الرحمن کے مطابق ملک میں اس مرض کی تشخیص بہت ہی محدود پیمانے پر ممکن ہوئی ہے، جس باعث اصل صورت حال بدتر ہو سکتی ہے۔

ایک حالیہ بیان میں ڈاکٹر عطا نے کہا کہ پاکستان میں اب تک چند ہزار لوگوں کے ہی ٹیسٹ کرائے ہیں جب کہ حکام کو روزانہ کی بنیادوں پر تیس سے چالیس ہزار افراد کے ٹیسٹ کرانے چاہییں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائینسز (پمز) کے سابق ایگزیکیٹو ڈائریکٹر جاوید اکرم نے بھی پاکستان میں ٹیسٹنگ کا دائر کار وسیع کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے جنوبی کوریا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کی آبادی پاکستان سے کہیں کم ہے لیکن وہاں کی حکومت نے اب تک پانچ لاکھ شہریوں کے ٹیسٹ کرا لیے ہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان میں کووڈ انیس کے مریضوں کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ اور امریکا میں کورونا وائرس کی وبا اس لیے بھی شدید صورت حال اختیار کر چکی ہے کیونکہ وہاں مسلسل ٹیسٹنگ ہو رہی ہے اور کیسز شفافیت کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں ٹیسٹنگ کے لیے وسائل اور صلاحیت قدرے محدود ہیں اور شفافیت کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کی آبادی پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے لیکن وہاں حکومت کی طرف سے بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ لوگوں کی تعداد پاکستان سے بھی کافی کم ہے، جو اکثریتی ماہرین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

پاکستان میں حکام کے مطابق ملک میں ٹیسٹنگ کے فقدان کی بنیادی وجہ نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ کِٹس کی عدم دستیابی اور متعلقہ عملے میں تربیت کا فقدان ہے۔

پاکستان میں ٹیسٹنگ کِٹس کی قیمت سات سے آٹھ ہزار روپے ہے۔

ڈاکٹر عطا الرحمن کے مطابق حکومت ٹیسٹنگ کِٹس اور ٹرینگ کے لیے چین سے مدد لے رہی ہے۔ لیکن ناقدین کے نزدیک اس میں وقت لگ رہا ہے اور ایسے میں ملک میں انفیکشن مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈان ناگزیر ہے۔

اسی دوران عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض ممالک اس خطرناک بیماری کی تشخیص اور روک تھام کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ ادارے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں نئے کورونا وائرس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ایسے میں حکومتوں کو جن ہنگامی بنیادوں پر تشخیص اور روک تھام پر توجہ دینی چاہیے، اس کا فقدان نظر آتا ہے۔