تحریر : سید کمال حسین شاہ پانی کا بحران اصطلاح سے مراد دنیا کے پانی کے وسائل بمقابلہ انسانی مانگ ہے۔ اس اصطلاح کا اطلاق اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے کیا ہے۔ دینا کے بہت سے حصوں میں تازہ پانی کی قلت ہے۔ آبادی اور فی کس استعمال میں اضافے اور عالمی حدت کی وجہ سے بہت سے ممالک میں پانی کی شدید قلت ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔اس مسئلہ پر مستقبل میں جنگیں ہونے کا بھی امکان ہے ۔پانی کا مسئلہ دنیا کے مختلف ممالک کو درپیش ہے۔ ہمارے لیے تو یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان کاشمار اب ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خطرہ ہے ۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2025 تک ملک پانی کی شدید قلت سے دوچار ہو سکتا ہے ۔اس کی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ اور ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے ۔تاہم پاکستان محکمہ موسمیات کے مطا بق ’’موسمیاتی تبدیلی کے منظر نامے بتا رہے ہیں کہ اگلے 30 سالوں میں درجہ حرارت بڑھیں گے اور مون سون میں اضافہ ہو گا۔ سردیوں میں برفباری کی نسبت، بارش کی مقدار زیادہ ہونے امکان زیادہ ہے ۔‘پاکستان کے موسمیاتی نظاموں سے منسلک کُل آبی وسائل کم نہیں ہوں، وہ بڑھیں گے …تاہم انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے …ملک کے دو بڑے ڈیم صرف ایک ماہ تک کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتے۔
اگرچہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ، درمیانے اور بڑے سائز کے ڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں مگر بڑے ڈیم مثلاً بھاشا دیامر اور داسو ڈیم مون سون کے علاقے سے باہر ہیں اور ان کے پانی کا ذریعہ پگھلتے ہوئے گلیشئیر ہوں گے ۔تو یہ لمحہ فکریہ کے پاکستان کی منصوبہ بندی میں۔ خاص طور پر مون سون کے علاقوں میں بارشوں میں اضافے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قیمتی وسیلے کو ذخیرہ کرنا ہوگا، تاکہ وہ خشک موسم میں آب پاشی میں کام آئے اور اس کے ساتھ ساتھ سیلاب بھی کنٹرول ہو اور اس سے توانائی بھی پیدا ہو…اگر ہم اپنی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کر لے تو پاکستان کو آئندہ سالوں میں پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہو گا۔ملک میں پانی کی قلت کی اصل وجہ پانی کے استعمال کے طریقے ہیں۔پانی کی قلت کو ختم کرنے اور دستیاب وسائل کو ذخیرہ کرکے فائدہ اٹھانے کے لیے ہر علاقے میں مقامی سطح پر لوگوں کی رہنمائی سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان جانے والے دریاؤں کا پانی روک کر آبی جارحیت کا مرتکب ہے ۔ کشمیر میں بھارت نے متعدد نئے بند تعمیر کیے اور کر رہا ہے ۔ حکومت پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کی مدد سے بھارتی بند بازی پر توجہ کی ہے … ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے تمام دریا ہندوستان یا ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے گزر کر آتے ہیں۔ الاقوامی ماہرین کا خیال ہے ہندوستان اور پاکستان اب شاید کشمیر پر تو جنگ نہ کریں لیکن پانی کے معاملات پر جنگ ہو سکتی ہے ۔
قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی تقسیم میں سازش کے ذریعے غیر منصفانہ طور پر نہ صرف ہندوستان کو کشمیر کے کیلئے راستہ دیا گیا بلکہ پاکستان میں آنے والے دریائوں کے ہیڈ ورکس بھی ہندوستانی علاقہ میں آگئے ۔ آزادی کے فوراً بعد ہندوستان نے پانی کے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیئے اور اپریل 1948 ئمیں تو پانی مکمل طور پر بند کر دیا۔ورلڈ بینک نے خود ایک پلان بنا کر دیا جس پر کئی سال کی گفت و شنید کے بعد مارچ 1960ء میں کراچی میں دستخط کر دیئے گئے ۔ اس کو سندھ طاس معاہدہ (Indus Water Treaty) کا نام دیا گیا۔ اس کے تحت تین مشرقی دریائوں، راوی، بیاس اور ستلج پر ہندوستان کا مکمل حق ہے جبکہ تین مغربی دریائوں، سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا حق ہے۔ پاکستان کے وہ علاقے جو مشرقی دریائوں سے سیراب ہوا کرتے تھے ان میں پانی کی کمی پوری کرنے کیلئے مغربی دریائوں کے پانی کو مشرقی دریائوں کی طرف موڑا گیا۔
Water Issue
اس کیلئے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا، پانچ بیراج اور سات لنک کنال بنائی گئیں۔ ان کے اخراجات کیلئے انڈین بیسن ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کر دیا گیا جس میں امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، جرمنی، کینیڈا نے حصہ ڈالا۔ مغربی دریا جو پاکستان کے حصے میں آتے ہیں جب تک وہ ہندوستان سے بہہ رہے ہیں ہندوستان کو گھریلو استعمال زراعت اور ہائیڈرو الیکٹرک جنریشن کیلئے ان کے استعمال کی اجازت ہے۔
تقریباً 30 سال تک بغیر کسی بڑے تنازعہ کے کامیابی کے ساتھ چلتا رہا، لیکن پھر ہندوستان نے اس شق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ وہ ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ لگا سکتا ہے ۔ مزید ڈیم بنانے شروع کیے اور ان کے ڈیزائن معاہدہ کے مطابق نہ ہیں اور وہ پاکستان کا پانی روک سکتا ہے ۔ وولر بیراج، سلال ڈیم، بگلیہار ڈیم مکمل کر لیے گئے ہیں۔ کشن گنگا ڈیم پر کام جاری ہے اور تین نئے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا جاچکا ہے ۔ اس کے علاوہ متعدد چھوٹے منصوبے بھی ہیں۔سندھ طاس معاہدہ میں، معاہدے پر عمل درآمد کیلئے اور کسی فریق کے انحراف کی صورت میں اس اختلاف کو دور کرنے کا بڑا تفصیلی طریقہ کار موجود ہے ۔ ایک مستقل انڈس واٹر کمیشن بنایا گیا ہے جس کے تحت پاکستان اور ہندوستان میں دریائی معاملات میں مہارت رکھنے والے انجینئر کو کمشنر مقرر کیا جاتا ہے ۔ ان کا کام معاہدہ پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے اور وہ ایک دوسرے سے رابطہ میں رہتے ہیں۔ پانچ سال میں سارے سسٹم کا دورہ اور اس کے علاوہ جب ضرورت پڑے دوسرے کمشنر سے رابطہ کرکے دورہ کر سکتا ہے ۔ا گر بھارت مقبوضہ کشمیر اور بھارتی پنجاب میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔
پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے سنگاپور اور جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ ہم ابھی تک پانی کے دوبارہ استعمال کے لئے پلاننگ کے مرحلے میں ہیں اور یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ابھی تک پانی کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لئے کوئی پلانٹ نصب نہیں کیا جا سکا۔پاکستان جیسے ملک کے لئے جہاں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ ہے وہاں حیران کن طور پر پانی تقریباً مفت دستیاب ہے ۔ ملک میں بجلی کی طرح پانی کے میٹر نصب نہیں ہیں جہاں صارفین پانی کے استعمال کے مطابق بل ادا کریں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بے تحاشہ پانی ضائع کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ گھروں میں پانی کے میٹر نصب کئے جائیں اور صارفین سے ان کے استعمال کے مطابق پانی کے بل وصول کئے جائیں تاکہ انہیں پانی کی اہمیت کا احساس ہو سکے ۔جاپان بھی ان ممالک میں شامل ہے جو تیزترین صنعتی ترقی کے باوجود پانی کی قلت کا شکار ہیں اور اس نے بھی بہترین واٹر مینجمنٹ کے ذریعے اس قلت پر نہ صرف قابو پایا بلکہ آج ان ممالک کی صف میں موجود ہے جہاں اس کا شمار پانی کے بہترین استعمال کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے جاپان نے بھی پانی کے بے جا استعمال سے بچاؤ کے لئے ٹیکنالوجیز کے حصول کے لئے بھاری سرمایہ کاری کی، اس کے ساتھ ساتھ جاپان نے پانی کی لیکج، نلکے سے آنے والے پانی کو صاف کرنے ، سمندری پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ سیوریج واٹر کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کے لئے ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ حاصل کیا۔ ان تمام کاوشوں کا یہ نتیجہ ہے کہ آج جاپان پانی کی مینجمنٹ کے حوالے سے دنیا کا بہترین ملک ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کی معیشت کا دارومدار زرعی شعبے پر ہے ۔ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے اور یہ شعبہ ملک کی مجموعی لیبر فورس کے 46 فیصد حصے کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ اگر مستقبل میں ملک کو اسی طرح پانی کی قلت کا سامنا رہا تو اس کے منفی اثرات کئی شعبوں پر مرتب ہونگے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کی قلت پر قابو پانے ،پانی کے ضیاع کو روکنے اور پانی کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں ۔ حکومت اور عوام دونوں کو اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے ۔پاکستان میں پانی کی کمی دور کرنے کیلئے مزید ڈیم بنانے کا جائزہ لیا جائے ۔ ماہرین کی ٹیم اور سیاستدانوں کا کمیشن جائزہ لے کہ کہاں ڈیم بنانے ضروری ہیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور صوبہ سرحد اے این پی کے ساتھ اتحادی ہیں اور سندھ میں خود ان کی حکومت اس لیے یہ بہترین موقع ہے کہ اس معاملہ میں کوئی پیش رفت کی جائے۔