پتہ نہیں ہمارے تجزیہ نگاروں کو پاکستان میں قحط الرجال کیوں نظر آتا ہے۔ میں تو اگر کسی ریڑھی والے انگوٹھا چھاپ سے بھی بات کروں تو مجھے اُس میں بھی خلیل جبران کی جھلک دکھائی دیتی ہے اِس لیے میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ پاکستان عقلمندوں کی عالمی منڈی ہے اور یہاں ڈھونڈے سے بھی کوئی ایسا بیوقوف نہیں ملتا کہ جسے عقل کی بات بتا کر اپنی ”عقلی بد ہضمی” کا تدارک کیا جا سکے۔ اِس منڈی میں تھوک کے حساب سے ارسطو، افلاطون، بزرجمہر اور خلیل جبران ملتے ہیں لیکن اِن کی قدر و قیمت محض اِس لئے نہیں کہ ہر گھر سے بھٹو نکلے نہ نکلے، ارسطو ضرور نکلتا ہے۔ یہاں سارے سیاستدان، سارا میڈیا، سارے لکھاری اور عامی اپنے آپ کو عقلِ کُل ہی سمجھتے ہیں۔
جہاں عقل کی اتنی فراوانی ہو وہاں ہم جیسے تو ”ایویں خوامخواہ ” قلم گھسیٹتے رہتے ہیں حالانکہ ”فرق اِس تو مگر پڑتا نہیں کوئی۔ ویسے تو ہمارے” فرمودات” بھی ”ارسطوانہ ”ہی ہوتے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا پہ بیٹھے اینکرز کا تو جواب ہی نہیں۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم اُن کے افلاطونی انداز ِ تخاطب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارے اینکرز محض بھرتی کے لیے مہمان بلاتے ہیں جو بس ”ایویں ای” ہوتے ہیں اور اکثر اُن پر طفلِ مکتب ہونے کا گُماں گزرتا ہے۔ شاید اسی لیے آجکل نیوز چینلز کے اینکرز باہم مل کر ٹاک شوز کرنے لگے ہیں۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ جس ملک میں سینکڑوں بزرجمہر الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر قوم کو درسِ بیداری دیتے ہوں اُس ملک کو بھلا کون ہزیمت سے دو چار کر سکتا ہے۔
ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ عنانِ اقتدار انہی اینکرز کے سپرد کر دینی چاہیے لیکن مسٔلہ یہ ہے کہ اگر انہی اینکرز میں سے کوئی جذبۂ خدمتِ ملّی سے سرشار ہو کر الیکشن لڑنے کی ٹھان لے تو اُس کی ”صندوقچی” ووٹوں کی عدم موجودگی کے سبب خود ہی شرم سے پانی پانی ہو جاتی ہے۔ کیا ہی اچھّا ہوتا جو حاکمانِ وقت حکومت کی باگ ڈور اینکرز کو سونپ کر خود چین کی نیند سوتے لیکن چین کی نیند اُن کے نصیب میں کہاں؟۔ اب یہ اینکرز اُمیدِ فردا کے سہارے سیاستدانوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے چینل چینل پھرتے رہتے ہیں۔آخر ”لوٹا کریسی” کا بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے ناں۔
Quaid-e-Azam
ہمیں چونکہ دانشور کہلانے کا جنوں ہے اسی لیے آجکل ہم بھی اپنے سیکولر بھائیوں کی طرح جبیںِ دانش پہ شکنیں ڈال کر نیم باز آنکھوں کے ساتھ مُنہ تھوڑا ٹیڑھا کرکے بات کرنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ ارسطوانہ ذہانت کے دعوے دار ہمارے سیکولر بھائی گزشتہ 66 سالوں سے قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قائدِ اعظم اور اقبال سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے۔ ہم چونکہ اُن کی ”بزرجمہری” کے آگے زانوے تلمذ طے کر چکے ہیں اِس لیے ہم بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں اور وہ جو حضرتِ قائد نے یہ فرمایا تھا کہ ہمیں زمین کا ایک ایسا ٹکڑا درکار ہے جسے ہم اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں۔
وہ تو دراصل اُنہوں نے ”گاندھی جی ” کو ”چھیڑ” کر مزہ لینے کے لیے کہا تھا اور حضرتِ اقبال نے بھی محض مسلمانانِ ہند کو خوش کرنے کے لیے اپنی شاعری کی بنیاد ہی اسلام پر رکھی۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کو خسارہ اُس کے سیکولر نظریات کے حامل ہونے میں بھلا کیا شک رہ جاتا ہے؟۔ قائد کے اولین سوانح نگار ہیکٹر بولائیتھونے جو متعدد بار یہ لکھا اور مختلف حوالے دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قائدِ اعظم اسلامی نظریات کو بنیاد بنا کر سر زمینِ ہند کی تقسیم چاہتے تھے، اُس پر یقین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بولائیتھوتو تھا ہی جھوٹا۔
اُس نے یقیناََ ہمارے ”مولویوں ” سے پیسے کھائے ہونگے۔ اگر کسی کو سچ جاننے کا شوق ہو تو اُسے ہمارے سیکولر دانشوروں سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ سچ کی ”شب دیگ” صرف انہی کے ہاں پائی جاتی ہے۔ اگرپھر بھی تسلی نہ ہوتو NGO’s سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے لیکن اِس میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ NGO’s سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین سے رجوع کیا جائے جو اپنی وضع قطع، چال ڈھال، گفت و شنید، نشست و برخاست اور لباس میں پاکستانی کم اور یورپین زیادہ لگتی ہوں۔ صرف یہی خواتین عہدِ جدید کے تقاضوں پر پورا اُترتی ہیںاور صرف وہی قائد اور اقبال پر اتھارٹی ہیں۔ ایسی خواتین نیوز چینلز پر تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں۔
اور اینکرز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے اکثر اِن کو بلا کر ساتھ کسی عالمِ دیں کو بٹھا دیتے ہیں کیونکہ اینکرز بھی خوب جانتے ہیں کہ یہ خواتین ”مولویوں” کے لتّے لینے کی ماہر ہیں۔ باقی سب پاکستانی خواتین تو ابھی تک عہدِ عتیق سے رشتہ جوڑے بیٹھی ہیں۔ یہ گھریلو خواتین عضوِ معطل اور معیشت پر بوجھ ہیں۔ رہبرانِ قوم کے فہم و فراست اور عقل و شعور میں تو کسی کو کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ تو” لاکھوں میں ایک ”اور چیدہ و چنیدہ ہوتے ہیں اور ہم بڑے اہتمام سے چلچلاتی دھوپ میں قطاروں میں لگ کر گھنٹوں انتظار کے بعد اُنہیں ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں۔ لیکن حیرت تواُس وقت ہوتی ہے جب قوم انہی رہبروں کے خلاف ڈنڈے لے کر باہر نکل آتی ہے اور یہ تماشہ کبھی کبھار نہیں بلکہ ہمیشہ ہوتا ہے۔
Pakistani People
اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی قوم ہے ہی ”لوٹی” جو اپنے تراشیدہ بتوں کو اپنے ہی ہاتھوں توڑنے پرتُل جاتی ہے اِس میں ہمارے ”لیڈروں”کا کوئی قصور نہیں، قصور ہے تو صرف قوم کا جو اُلٹے پاؤں پھرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتی۔اب یہی دیکھ لیجیئے کہ قوم نے کتنے چاؤ سے بھنگڑے ڈالتے ہوئے نواز لیگ کو منتخب کیا اور اب اُسی کے خلاف سڑکوں پہ نکلی ہوئی ہے۔اگر ہمارے رہبران کی فہم و فراست کا اندازہ لگانا ہے تو اُن کی وزارتوں سے لگا لیجئے۔ باقی وزارتیں تو بس ایویں ای ہوتی ہیں اصل وزارتیں تو داخلہ، خارجہ، خزانہ اور دفاع کی ہیں۔ اللہ بھلا کرے امریکہ کا جہاں سے ہماری خارجہ پالیسی بن کر آ جاتی ہے۔
داخلہ پالیسی ہم نے طالبان کو ٹھیکے پر دے رکھی ہے اور امورِ خزانہ کے لیے IMF زندہ باد۔ رہی وزارتِ دفاع تو اُس کی ہمیں سرے سے ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہمارے پاس ایٹم بم ہے جسے جب جی چاہے گا چلا دیں گے کیونکہ بقول چوہدری شجاعت حسین ”ایٹم بم ہم نے شب برات پر پھُل جھڑیوں کی جگہ چلانے کے لیے نہیں رکھا ہوا۔ پوری دنیا ہمارے ایٹم بم سے خوفزدہ ہے اور ہم پوری دنیا سے۔ یہ تو وہی ہوا کہ ایک دفعہ ایک ہندو نے ایک جاٹ کو نیچے گرا لیا اور اُس کی چھاتی پر بیٹھ کر رونے لگا۔ ایک راہگیر نے پوچھا کہ ”کیوں رو رہے ہو؟۔ تو ہندو نے روتے ہوئے جواب دیا ”مینوں پتہ اے، جٹ جدوں وی اُٹھے گا، مینوں مارے گا۔
ہم نے جب سے ایٹم بم بنایا ہے، تب سے عالمِ خوف میں ہی ہیں۔ اسی خوف کی بنا پر ہم نے محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو رسوا کیا اور یہی خوف ہمیں امریکہ کی اندھی، بے چہرہ جنگ میں دھکیل گیا۔ پتہ نہیں یہ خوف اور کیا گُل کھلائے گا۔ کاش کہ ہم نے گھاس کھا کر ایٹم بم نہ بنایا ہوتا۔ ہمارے علمائے دین بھی اپنے فہم و تدبر میں کسی سے کم نہیں۔ ہم نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہمارے علماء کا تبلیغِ دیں، امامت، نکاح اور جنازے پڑھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیکن اُنہوں نے اپنی فراست کے زور پر یہ ثابت کر دیا کہ زندگی کے ہر شعبے میں وہ مکمل فِٹ بیٹھتے ہیں۔ میدانِ سیاست میں علماء کے کردار سے مفر ممکن نہیں۔
جہاد میں اُن کا کوئی ثانی نہیں، تبلیغِ دین کے لیے اُنہوں نے کمال فراست سے اتنے فرقے بنا دیئے ہیں کہ جس کا جی چاہے اپنی مرضی کا دین منتخب کر لے۔ آجکل وہ اپنے ہی تراشیدہ طالبان کو اللہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے دے کر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اِن علمائے کرام کے طالبان نامی شاگردانِ رشید ”میں نہ مانوں” کی رَٹ لگانے سے باز بھی نہیں آتے۔ اللہ بھلا کرے ہمارے علمائے کرام کا ، اگر یہ نہ ہوتے تو ہماری تو کسی نے نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھانی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ غالب اکثریت کو تو نمازِ جنازہ آتی ہی نہیں۔ یہ غالب اکثریت میں نے مصلحتاََ لکھا ہے تاکہ لوگ ناراض نہ ہو جائیں حالانکہ میں لکھنا یہ چاہتی تھی کہ ننانوے فیصد کو نمازِ جنازہ نہیں آتی۔