لاہور (جیوڈیسک) ہمارے معاشرے میں عورت کا مقام اُس مقام سے کہیں منفرد اور مختلف ہے جو اسے مغرب میں حاصل ہے۔ مغرب میں خواتین کے حقوق کا تحفظ اخلاقیات سے نہیں، بلکہ ’’افادیت‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ پاکستانی عورت نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور معاشرے میں مرد کے کاندھے سے کاندھا ملانے کے بجائےاپنی منفرد پہچان بنائی۔ بات ہو سیاست کی تو مسلم دنیا کی پہلی خاتون سربراہِ مملکت اور دختر مشرق کا لقب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پایا۔ قومی اسمبلی کی اٹھارویں اور پاکستان کی پہلی خاتون سپیکر بننے کا اعزاز فہمیدہ مرزا نے حاصل کیا۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ حنا ربانی کھر بنیں۔ نوبل امن ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی جو حصولِ تعلیم کے لئے اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتی۔ دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی پروفیشنل کا اعزاز پا کر جہانِ فانی سے کوچ کر جانے والی ارفع کریم رندھاوا بھی پاکستان کا روشن ستارہ ہیں۔
معیشت کے میدان میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی چودہویں اور پاکستان کی پہلی خاتون گورنر ڈاکٹر شمشماد اختر کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں تو دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ اور پاکستان کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ عائشہ فاروق ایسی خواتین ہیں جو ناصرف پاکستان کی 51 فیصد کا بلکہ 18 کروڑ لوگوں کا مان اور فخر ہیں۔