اسلام آباد (جیوڈیسک) ملازمت اختیار نہیں کی۔ متعدد حلقے اس صورتحال کو معاشرے کے لیے انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہیں۔ پاکستان کے متعدد غریب علاقوں کی خواتین کو صحت کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈاکٹر بن کر پریکٹس نہ کرنے والی پچاسی ہزار خواتین کے صرف 50 فیصدکی ہی خدمات اگر بروئے کار لائی جائیں تو کم آمدنی والی کمیونیٹیز کےصحت سے متعلق 70 فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر سلمان فریدی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے نامور لیاقت نیشنل ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا، ’’خواتین ڈاکٹرز پر بات کرتے ہوئے ہم یہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ہونے کہ ساتھ ساتھ بیٹی، بیوی اور ماں بھی ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان پر بہت سی دیگر ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا مرد یہ چاہتا ہے کہ گھر کا نظام متاثر نہ ہو اور بچوں کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھائی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عموماﹰ شادی کے بعد ان کے کام کرنے پر سسرال اور شوہر کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے لگتے ہیں، جس کے دباؤ میں آ کر عموماﹰ خواتین ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر خاتون خانہ بننے کو ترجیح دیتی ہیں۔‘‘
جناح ہسپتال کراچی کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے اپنی مثال دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’میں بھی ایک عورت ہوں اور اسی معاشرے کا حصہ ہوں۔ مجھے بھی ان تمام مسائل کا سامنا رہا مگر میں نے ہمت نہیں ہاری۔ اپنی ملازمتی زمہ داری بھی پوری کی اور بچوں کی تربیت بھی کی اور گھر داری بھی سنبھالی، میں یہ سمجھتی ہوں کہ نوکری کرنے یا نہ کرنے میں عورت کا اپنا بہت زیادہ عمل دخل بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر سلمان نے خواتین کے علاج پر بات کرتے ہوئے کہا،’’پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں آج بھی ہزاروں خواتین بروقت طبی امداد حاصل کرنے سے قاصر ہیں، اس کی وجہ ان کے اپنےگھر والے بھی ہیں، جومرد ڈاکٹروں سے اپنی خواتین کا علاج نہیں کرانا چاہتے۔ خصوصاﹰ حاملہ خواتین اور عضو خاص کی بیماریوں میں خاص اجتناب برتا جاتا ہے۔ یہیںخواتین ڈاکٹرز کی اشد ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر جمالی بیک وقت جناح اسپتال کی ایمرجنسی کی بھی ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے خواتین ڈاکٹرز کی کمی پر بات کرتے ہوئے کہا،’’میں عورت اور مرد کے فرق کی قائل نہیں ہوں۔ میں نے خواتین کو مرد گائنا کالوجسٹ کے پاس بھی جاتے دیکھا ہے۔ معالج کا انتخاب اس کی مہارت پر کیا جانا چاہیے نہ کہ عورت اور مرد کی تفریق میں پڑا جائے۔‘‘
لیاقت نیشنل اسپتال کراچی کے میڈیکل ڈائریکٹر نے مزید کہا،’’خواتین ڈاکٹرز کا تعلیم کے بعد ملازمت نہ کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ ملکی ترقی میں حصہ نہیں لے پاتیں۔ ساتھ ہی خواتین ڈاکٹرز پر حکومت اور والدین کا لگایا گیا پیسہ سود مند ثابت نہیں ہو پاتا، جس سے پاکستان کے شعبہ طب کو اچھا خاصہ نقصان ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر سیمی نے ڈاکٹر سلمان کے موقف کی تائیدکی۔
ڈاکٹر صباحت ہارون نے ڈگری حاصل کرنے کے بعد ملازمت نہیں کی۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کی ذمہ دار وہ خود بھی اور معاشرہ بھی،’’میں نے یہ سوچا تھا کہ شادی کے بعد ملازمت کروں گی مگر جب ایک بڑے آپریشن کے ذریعے میں ماں بنی تو میری طبعیت سالوں سنبھل نہیں پائی۔ بعد ازاں میں اپنے بیٹے کی تربیت میں مصروف ہو گئی۔ اب میری شادی کو دس سال بیت گئے ہیں اور میں گھر داری کی ہی ہوکر رہ گئی ہوں۔‘‘
جناح ہسپتال کراچی کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی نے کہا،’’اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ صرف ایک اعلی پیشہ وارانہ سند حاصل کرنے کی غرض سے ہی خواتین اس شعبہ میں آتی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق خواتین ڈاکٹرز کے ملازمت نہ کرنے میں معاشرے کے ساتھ ساتھ ان کا اپنا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یا تو اتنے سنجیدہ پیشے کو اپنایا ہی نہ جائے اور جب اختیار کر لیا جائے تو اس کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔
ڈاکٹر سلمان فریدی نے مسائل کے حل پر بات کرتے ہوئے کہا،’’ اداروں کی مضبوطی سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پارٹ ٹائم جاب کی اجازت، ڈاکٹرز ماؤں کی سہولیت کے لیے چائلڈ ڈے کیر سینٹر، جاب شیئرنگ کی سہولیات اور آفس میں ہی گھر کے لیے کھانا پکوا کر ساتھ لے جانے جیسی سہولیات سے خواتین ڈاکٹرز کی ملازمت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ گفتگو کے دوران ڈاکٹر فریدی نے یہ بھی بتایا کہ یہ تمام سہولیات ان کے ہسپتال میں خواتین ڈاکٹرز کو حاصل ہیں۔ مگر دیگر ہسپتالوں میں اسکا فقدان ہے۔‘‘
اس سلسلے میں ایک تجویز یہ بھی دی جا رہی ہے کہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود کام نہ کرنے والی خواتین سے اگر ٹیلی میڈیسن کے ذریعے کام لیا جائے تو مسائل پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔