تحریر: روہیل اکبر میں ہوں پاکستان اور آج میرا جنم دن ہے پوری دنیا میں آج میری سالگرہ کے کیک کاٹے جائیں گے میری عظمت کی نشانی سبز ہلالی پرچم کو سیلوٹ اور بوسے بھی دیے جائیں گے میرے نام کے ترانے بجائے جائیں گے اور کچھ شرارتی بچوں نے تو رات سے ہی سڑکوں پر اودھم مچا رکھا ہے جتنی میری آج کے دن تعریف کی جائیگی دل تو کرتا ہے کہ اپنا سر فخر سے بلند کرلوں مگر کیا کروں میں اب کوئی بچہ نہیں ہوں بلکہ 68 سال کا وہ خوبصورت چہرہ ہوں جس کی رگوں میں لاکھوں شہیدوں کے خون کی لالی ہے جب مجھے حاصل کیا گیا تھا۔
اس وقت میرے بدترین دشمن بھی میرے چاہنے والوں کی راہ میں نہ ٹہر سکے جن کے ولوں میں سمندر کی موجوں سا جوش تھا جو ایسا طوفان تھے کہ انکے سامنے کوئی دشمن اکڑ کر نہ چل سکا اور وہ سب کے سب بے سروسامانی کے عالم میں صرف ایک ہی بات کے نعرے لگا رہے تھے لے کے رہے گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان، آج میں اپنی حالت دیکھتا ہوں تومجھے انکی یاد شدت سے آتی ہے جو میرے اپنے تھے جنہوں نے میری عظمت کی قسم کھائی تھی کہ وہ مجھے عظم تر بنائیں گے آج میری نگائیں متلاشی ہیں مجھے اپنے صحراؤں ،پہاڑوں اور دریاؤں پر بڑا ناز تھا کہ مجھے میرا وجود دینے والے ان خوبصورت میدانوں کو اس خوبصورتی سے آباد کرینگے کہ میں دنیا میں ایک مثال بن کر ابھرونگا مگر میری پیدائش سے لیکر آج تک کسی نے بھی میرا سہارا بننے کی کوشش نہیں کی مجھے لاالہ الااللہ کا نعرہ دیکر خود منوں مٹی تلے جاسوئے اور انکے نام نہاد جانشینوں نے مجھے دربدر کردیا سندھ میں مہاجرازم اور قوم پرستی کا زہر اگل کراور بلوچستان میں آزادی کے نام پر گلے کاٹے جا رہے ہیں۔
فاٹا میں مذہب کے نام پر بارود بچھا کرعبادتگاہوں میں جہاں محبت کے پھول ملتے تھے وہاں نفرت کی آڑ میں مذہب کو تجارت بناکر بیچا گیا اسلام کے نام پر حاصل کرنے کے بعد مجھے میرے اپنوں نے ہی اسلام کے نام پر دہشت گردی کا ایسا نشانہ بنایا کہ میری عبادت گاہیں تک محفوظ نہ رہی مجھے اتنا لوٹا گیا کہ میرے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا گیا میں اپنے ہی گھر میں اجنبی بن گیاکبھی آمروں نے مجھے بچانے کے لیے اپنی آمریت مسلط کردی تو کبھی جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ڈاکوں نے مجھے جی بھر کرلوٹا میں جس مقصد کے لیے بنا تھا اس پر آج تک کسی نے عمل نہیں کیا جس کلمے کے نام میں میں معرض وجود میں آیا تھا اس کلمے کی حقیقت سے ابھی بھی بہت سے میرے اپنے ناواقف ہیں آج جب میرے سبز ہلالی پرچم کو سیلوٹ کیے جائیں گے تو مجھے سب کی نیتوں کا حال معلوم ہے کہ یہ ہی وہ لوگ ہے جو میری تقدیر کو بدلنے کا وعدہ کرکے مجھ پر سوار ہوتے ہیں اور پھر میری ہی تقدیر سے کھیلنا شروع کردیتے ہیں کیا مجھ میں رہنے والوں کو معلوم نہیں کہ میں نے ہی سب کو اپنی شنا خت سے نواز رکھا ہے اور یہ نادان جس ٹہنی پر آشیانہ سجائے بیٹھے ہیں اسی کوکاٹ رہے ہیں پہلے دہشت گردوں نے مجھے اندر سے ہلا کررکھ دیا تھا تو آج سیلاب نے مجھے ڈبو رکھا ہے۔
Flag of Pakistan
غربت ،افلاس اور پسماندگی نے مجھے اس قابل نہیں چھوڑا کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکوں مجھے مصنوعی طاقت دینے کے لیے قرضوں کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے مگر بعد میں میری رگوں سے دوگنا خون نچوڑ کر دوسرے ممالک کے بلڈ بنکوں میں رکھوا دیا جاتا ہے میرے لوگ اندر سے میری طرح ٹوٹ چکے ہیں دن بدن بڑھتی ہوئی کمزوری نے مجھے اب اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکوں مگر ابھی بھی کچھ میرے اپنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر میں پھر سے جوان ہونے کی کوشش کرتا ہوں اور کسی قسم کا ڈر خوف مجھے محسوس نہیں ہوتاایک امید ہے کہ شائد میرے نام پر جینے والے اور مر مٹنے والے مجھے سہارا دیکر اٹھا دیں۔
میرے ساتھ جنم لینے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے مجھ سے دو سال چھوٹا چین جس کا دنیا مذاق اڑاتی تھی جو مجھ سے کئی درجے کمزور تھا اور میری مدد سے اس نے اپنے بچپن کی مشکلات کے دن گذارے مگر اسکے بیٹوں نے اسکے خون کا حق ادا کردیاآج چین دنیا پر راج کررہا ہے دنیا کا بڑے سے بڑا ملک اور اپنے آپ کو سپر طاقت کہلانے والے سب ہی آج چین کے مرہون منت ہیں اور دنیا بھر کے وسائل اس کے قدموں میں ہیں۔ کل دنیا جسے گونگا سمجھتی تھی آج وہ بولتا ہے تودنیا سنتی ہے معلوم ہے میرے قیام کے دن تم سب جشن بھی مناؤ گے ، میری عظمت میں گیت گاؤ گئے ، جلسوں اور ریلیوں میں محبت کے بڑے بڑے دعوے بھی کرو گے۔
کوئی کہے گا کہ میں سب کو روٹی، کپڑا اور مکان دوں گا، کوئی کہے گا مجھے سپر پاور بنا دیا جائیگا۔ کوئی مجھے میل کچیل اتار کر نیا بنانے کی بات کرے گا، کوئی کہے گا میں رب اور رب کے نظام کو بھول چکا ہوں اور وہ مجھے دوبارہ کلمہ پڑھانے کی کوشش کرے گا۔ کوئی کہتا ہے کہ میرے مہاجر بیٹوں کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا، ہم ان کو انصاف دینگے ، ٹی وی والے بھی ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر طرح طرح کی بڑھکیں ماریں گے ۔مجھ سب کے دلوں کا اندر سے حال معلوم ہے کہ کون میرے ساتھ مخلص ہے اور کون میری اندر سے جڑیں کاٹ رہا ہے مگر میں مایوس اب بھی نہیں ہوں کیونکہ میری حفاظت کرنے والے زندہ ہیں وہی مجھے بچائیں گے وہی مجھے ترقی دینگے میں رہتی دنیا تک رہوں گا کیونکہ قیامت تک جس کلمہ طیبہ کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالی نے لے رکھا ہے میں بھی اسی کلمہ کے صدقہ 27رمضان المبارک کو پیدا ہوا تھا اور کلمہ کی قسم میں ایک روشن دلیل ہوں میں ہی اللہ کا انعام ہوں ’’میں پاکستان ہوں۔