تحریر : اختر سردار چودھری ہر سال 18اپریل کو دنیا بھر میں ثقافتی ورثہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کی مختلف قدیم تہذیبوں کی ثقافت ،ورثہ،اور آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا ،اس کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا وغیرہ ہے اقوام متحدہ کے ادارے” یونیسکو “نے 16 نومبر 1972 کو پہلی مرتبہ قدیم تہذیبوں ،ثقافت اور آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے کی منظوری دی ۔اور اس عزم کا اظہار کیا کہ دنیا میںقدیم اور جدید تہذیبوں کے آثار قدیمہ ،ثقافت،کو محفوظ بنایا جائے ۔عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے پاکستانی مقامات میں سے چند ایک (موئن جو دڑو، ٹیکسلا ،تخت بھائی کے کھنڈرات ، قربی شہر سیری بہلول کی باقیات، قلعہ لاہور اور شالامار باغ ،مکلی کا قبرستان اور قلعہ روہتاس)کے بارے میں چند ایک دلچسپ بنیادی معلومات درج ذیل ہیں
“قلعہ لاہور” جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے ، پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں واقع ہے ۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے ۔ اس قلعہ کی تاریخ زمانہ قدیم سے جا ملتی ہے دوران کھدائی محمود غزنوی 1025کے دور کا سونے کا سکہ ملا۔ جبکہ پانچ میٹر کی مزید کھدائی سے ملنے والے قوی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر آبادی محمود غزنوی کے لاہور فتح کرنے سے بھی پہلے تقریباً 1021میں موجود تھی ۔یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ قلعہ لاہور کی بنیاد کس نے اور کب رکھی تھی ۔ لیکن اس کی ازسرِ تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم (1605ئـ1556ئ) نے کروائی ۔قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں۔ 1981میں یونیسکو نے اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔”شالامار باغ “مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے لاہور میں 1641ـ1642 میں تعمیر کرایا۔باغ کے گرد اینٹوں کی ایک اونچی دیوار ہے ۔ باغ ایک مستطیل شکل میں ہے ۔ 3 حصوں میں بٹا ہوا ہے اور تینوں کی بلندی ایک دوسرے سے علیحدہ ہے ۔ ایک حصہ دوسرے سے 4.5 میٹر تک بلند ہے ۔ تینوں حصوں کے نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں۔ باغ کو ایک نہر سیراب کرتی ہے ۔ باغ میں 410 فوارے ہیں، 5 آبشاریں اور آرام کے لیے عمارتیں ، مختلف اقسام کے درخت ہیں۔ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیئے گئے مقامات میں سے ایک ٹیکسلابھی شامل ہے۔
“ٹیکسلا “ایک قدیم شہر راولپنڈی سے 22 میل دور ، 326 ق م میں سکندر اعظم نے اس شہر پر قبضہ کیا ۔ باختر کے حکمران ” دیمریس “نے 190 ق م گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا ۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی ۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح ” ہیون سانگ “یہاں آیا تھا۔ یہاں عجائب گھر ہے ، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے دس ہزار سکے ( بعض یونانی دور کے ) زیورات ، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔اس شہر کو 1980ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل کیا ۔
Kotdigi Qilla
“موئن جو دڑو” ، یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور، وادی سندھ کے ایک اور اہم مرکز” ہڑپہ” سے 400 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا ۔موئن جو دڑو کو 1922ء میں برطانوی ماہر آثار قدیمہ ” سر جان مارشل” نے دریافت کیا اور ان کی گاڑی آج بھی موئن جو دڑو کے عجائب خانے کی زینت ہے ۔(لیکن ایک مکتبہ فکر ایسا بھی ہے جو اس تاثر کو غلط سمجھتا ہے) موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ” مْردوں کا ٹیلہ” ہے ۔ یہ شہر بڑی ترتیب سے بسا ہوا تھا۔ اس شہر کی گلیاں کھلی اور سیدھی تھیں اور پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام تھا۔ اندازاً اس میں 35000 کے قریب لوگ رہائش پذیر تھے ۔ یہ شہر اقوام متحدہ کے ادارہ ثقافت یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ میں شامل ہےعالمی ورثہ میں ” تخت بھائی” بھی شامل ہے (تخت اس کو اس لئے کہا گیا کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بہائی یابھائی اس لئے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا)پشاور سے تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بدھا تہذیب کی باقیات پر مشتمل مقام ہے جوکہ اندازاً ایک صدی قبلِ مسیح سے تعلق رکھتا ہے ۔اس مقام کو 1980 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف سب سے پہلے توجہ فرانسیسی جنرل کورٹ نے1836 میں دلائی ،اس کی کھدائی کا آغاز 1852 میں ہوا۔
لْنڈ کھوڑ، شیر گڑھ، چارسدہ، سیری بہلول، تخت بھائی کے اطراف و مضافات میں واقع ہیں۔ سیھری بہلول یا سیری بہلول یہ تخت بھائی کی حدود میں آتا ہے ۔ یہاں بھی بدھا تہذیب کی باقیات ملی ہیں تاہم تحقیق و کھدائی کا کام ہنوز مکمل نہیں کیا جاسکا۔اسی طرح “ٹھٹہ “کے بیش تر تاریخی مقامات و نوادرات کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ادارے نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے ۔ ٹھٹہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں کینجھر جھیل کے نزدیک واقع ایک تاریخی مقام ہے ۔یہ قصبہ کراچی کے مشرق میں تقریباً 98 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ کراچی کے قرب میں ہونے کی وجہ سے ، اس تاریخی و خوبصورت جگہ پر سیاحت کے دلدادہ لوگوں کی بڑی تعداد آسانی کے ساتھ پہنچ جاتی ہے۔، اس کے اطراف میں بنجر اور چٹانی کوہستانی علاقہ اور دلدلی زمین بھی ہے ۔ اس کے اطراف و اکناف کی کھدائی میں قدیم تاریخی نوادرات ملے ہیں جوکہ زمانہ قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں۔
چودھویں صدی عیسوی میں یہ شہر نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ سندھ کا داراالخلافہ تھا، جوکہ 95 سال تک رہا۔دنیا کا سب سے بڑا اور قدیم قبرستان ” مکلی” بھی ٹھٹہ کے قریب واقع ہے ۔ یہ قبرستان، جس میں لاکھوں قبورہیں تقریباً آٹھ کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے ۔ یہاں کئی بادشاہ، ملکہ، علمائ، فلسفی اور جرنیل ابدی نیند سورہے ہیں۔” قلعہ روہتاس “شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا ۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے ۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے ۔ قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے ۔
Rohtas Qila
ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بیک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے ۔قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، ۔قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شاہ اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیںقلعہ روہتاس کی تباہی کا آغاز اس دن ہوا جب ہمایوں جو شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران چلا گیا تھا۔ دوبارہ شہنشاہ ہندوستان بن کر اس قلعے میں داخل ہوا۔ وہ اس عظیم قلعے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ تو اس کے دشمن شیر شاہ نے بنوایا ہے تو اس نے غصے کی حالت میں اسے مسمار کا حکم دیا۔ بادشاہ کے معتمد خاص بیرم خاں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اب یہ اسلامی ورثہ ہے اوراس پر قوم کا کافی پیسہ خرچ ہوا ہے اس لیے اسے مسمار نہ کیا جائے
ہاں اپنے حکم کی شان برقرار رکھنے کی خاطر اس کا کچھ حصہ گرادیں۔ چنانچہ سوہل دروازے کے پنچ کنگرے گرادیے جائیں۔ جو بعد میں دوبارہ تعمیر کرائے گئے ۔ قلعے کی اصل تباہی سکھوں کے ہاتھوں ہوئی جو شاہی محلات کے اندر سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گئے ۔ یہ قلعہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے ۔پاکستان میں پائے جانے والے آثار قدیمہ اور دیگر ثقافت جس میں پاکستانی تاریخ کا حصہ رہنے والی مختلف ثقافتیں بھی شامل ہیںان کی حفاظت نگہداشت کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہو ئے تاریخی مقامات کے تحفظ اور بچائوکے لئے حکومت کی طرف سے عملی اقدامات سے ہمیشہ گریز کیا گیا ہے۔ مثلاََآصف خان کا مقبرہ ، اکبری سرائے ،ہرن مینار ،قلعہ رانی کوٹ ، چوکنڈی، آثار قدیمہ مہر گڑھ، آثار قدیمہ رحمن ڈھیری ، ہڑپہ، بلتت قلعہ، مقبرہ بی بی جاوندی, بہا الحلیم اور مقبرہ ،مسجد سید جلال الدین سرخ پوش بخاری مقبرہ رکن عالم ،بھمبھور،اچجولیاں،قلعہ دروشپ چترال ،وغیرہ جیسے سینکڑوں تاریخی مقامات کی نگہداشت نہ ہونے سے تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔