اسلام آباد (جیوڈیسک) دنیا بھر میں آج آزادی صحافت کا دن منایا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں صحافی اس آزادی کی کیا قیمت چکا رہے ہیں اور کن حالات میں سچ عوام تک پہنچا رہے ہیں، آپ کے لیے ایک گولی کا انتخاب کیا جا چکا ہے۔
یہ وہ عنوان ہے جس کے تحت ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی۔پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک بن چکا ہے، یہ روایتی فقرہ اب ایک بد ترین حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور سال 2008ء سے اب تک پاکستان میں 34 صحافی اپنے پیشہ وارانہ فراض کی ادائیگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
چند دن قبل ایک جان لیوا حملہ جیو نیوز کے سینئر اینکر اور معروف صحافی حامد میر پر کیا گیا۔ انہیں 6 گولیاں لگیں تاہم اللہ نے انہیں بچا لیا۔ پاکستان میں صحافیوں کی ہلاکت، اغواء، تشدد اور دھمکیوں کے بعد تحقیقاتی کمیشن بنانا۔
ایک معمول بن چکا لیکن آج تک صرف ولی بابر کے قاتلوں کو ہی انصاف میں کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکا۔ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے الفاظ بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن قلم اور کیمرے کو جبر و تشدد کا نشانہ بنا کر پیامبر کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔