لاہور (جیوڈیسک) موسیقی روح کی غذا سمجھی جاتی ہے، اس مناسبت سے دنیا بھر میں سروں کا دن منایا جاتا ہے۔ مشرقی موسیقی کی مختلف اصناف میں پاکستان نے اپنا منفرد مقام بنایا تاہم اب سر کے دلدادہ گائیکی کے معیار سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہے ۔فلمی گائیکی کا ذکر کیا جائے تو پاکستان نے ملکہ ترنم نور جہاں اور مہدی حسن جیسے عظیم گائیک پیدا کئے۔
یہ وہ گلوکار ہیں جنہیں کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا۔ کلاسیکی موسیقی کے خوبصورت رنگوں میں ٹھمری، دادرہ، کافی اور خیال گائیکی کا ذکر کبھی بھی شام چراسی، پٹیالہ، تلونڈی، گوالیار اور قصور گھرانوں کے بنا مکمل نہیں ہو سکتا۔ استاد نصرت فتح علی خان کو فن قوالی کی تاریخ کے سب سے درخشاں ستارے کی حیثیت حاصل ہے۔ غلام فرید صابری اور عزیز میاں سمیت کئی دوسرے قوالوں نے بھی موسیقی کی اس صنف کو بام عروج تک پہنچایا۔
غزل گائیکی کا ذکر مہدی حسن، فریدہ خانم، اقبال بانو، خورشید بیگم، غلام علی اور پرویز مہدی کے بغیر ادھورا ہے۔ فوک موسیقی میں عالم لوہار، شوکت علی، نذیر بیگم، ثریا ملتانیکر، ریشماں، پٹھانے خان، عابدہ پروین، سائیں اختر، عارف لوہار اور دیگر نے نام کمایا۔
گائیکی کا ایسا شاندار ماضی رکھنے کے باوجود ناقدین کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں دیگر فنون کی طرح فن گائیکی بھی زوال پذیر ہے۔ موسیقی سے محبت رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک نئے گلوکار اس فن کے اسرار رموز سے وافقیت حاصل نہیں کرتے موسیقی کے اس میدان میں کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔