پروفیسر : ڈاکٹر شبیر احمد خورشید حرمین الشریفین کی سر زمین ویسے تو ہر مومن مسلمان کے لئے انتہائی مقدس ہے۔مگر اس کے علاوہ بھی ہمارا ایک اور اہم حوالہ ہے۔وہ ہے ایک ایسے ہمدرد و غمگسار بھائی کا جس نے ہر انتہائی کٹھن گھڑی میں اپنے مفادات کی پرواہ کئے بغیر اپنی اعلیٰ ظرفی اور دوستی کا ایسا حق نبھایا جس کو تاریخ کبھی فراموش نہ کر سکے گی۔مگر نواز شریف جیسا لیڈر بھی آج حوثی باغیوں کے پروردہ لوگوں کے نرغے میں دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان کا ایک ایسا طبقہ جس کی اگر اصل کی جانب جاکر تحقیق کر لیں تو تعداد پانچ فیصد سے زیادہ نہ نکلے گی ۔اس گروہ نے اپنے لوگوں کو ہر پارٹی میں انفلوینشل پوزیشنزپر فٹ کرایا ہوا ہے، اور میڈیاپر بھی ان کے خاصے لوگ ٹالک شوز کے ہیرو ہیں۔
اس کے علاوہ فیس بک اور دیگر میڈیاز پر بھی ان کے لوگ حوثی باغیوں کی خوب خوب مدد و حمایت میں سر گردان دکھائی دیتے ہیں۔ان لوگوںنے حکومت اور حکومتی پارٹی کواسمبلی کے روزولیوشن کے چکر میں پھنسا کر سعودیوں کا امتحان لینے کی نا کام کوشش کی ہے اور حکومت پاکستان کو اپنے بھائیوں سے بڑھ کر ہمدرد ملک سے بے وفائی کرنے کا جی بھر درس دیا ہے۔اسمبلی کے فلور پر ان لوگوں نے ایسے ایسے کلمات سعودی عرب کے بارے میں کہہ دیئے ہیں جو یہ لوگ ہمارے حقیقی دشمن ملک ہندوستان کے خلاف کہتے ہوئے کانپتے ہیں۔کیا انہیں یاد نہیں ہے کہ 1965کی پاو ہند جنگ کا مرحلہ جب سعودی عرب نے اپنا سب کچھ اس جنگ کے ضمن میں پاکستان کی جھولی میں ڈالدیا تھا؟اسی طرح 1971، کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات میں شاہ فیصل شہید نے پاکستان کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا۔
ابھی ڈیڑھ عشرہ قبل مئی 1998 ، کی بات ہے۔ جب پاکستان نے ایٹمی ڈھما کے کئے تو یہ سعودی عرب ہی تھا جو ہمارے کندھے تھپتھپا رہا تھا جبکہ ساری مغربی دنیا اور ایشیا کے اکثر ممالک پاکستان کی مخالفت میں کمر بستہ تھے ۔سعودیوں نے مغرب کاخوف یا کسی مصلحت سے کام نہیں لیا بلکہ کھل کر پاکستان کی مدد کی اور آج ہمارے نام نہاد رہنما اپنے اس عظیم ہمدرد اور محسن کو اپنی بھینگی آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔اگرانہیں شرم ہے توچلو بھر پانی میںڈوب مریں۔احسان فروشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
Saudi Arabia
سیاسی بیان بازی سے کام چلے گا اور نہ مصلحت پسندی سے۔کیا کبھی ہمارے برے وقت میں سعودیوں نے ہمیں اکیلا چھوڑا؟؟؟کیا کبھی کوئی مصلحت پسندی ان کے آڑے آئی ؟؟؟کیاکبھی کشمیر کے معاملے میں ہمیں سعودیوں نے اکیلا چھوڑا؟؟؟آج بھانت بھانت کی بولیاں حوثی باغیوں کے درپردہ حمائتی اسمبلی کے فلور پر بول رہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سب یک زبان ہو کر اپنے محسن ملک کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوتے مگر وہ لابی جو درپردہ ایرنیوں کی حمائتی ہے، ایرانیوں نے ہی در پردہ ہمارے ایٹمی ٹیکنالوجی کے ہیرو کی کمر میں چھرا گھونپا تھا کی جنہوں نے امریکہ کے سامنے خاموشی سے یہ اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان نے انہیں ایٹمی قوت بننے میں اپنی بھر پور مدد و اعانت فراہم کی ہے۔
ایران آج بھی بہانے بہانے سے پاکستان کو دھمکیاں دیتا دکھائی دیتا ہے۔جو حوثی باغیوں کی جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارد سے بھرے جہاز بھی بھیجتا رہا ہے اور جو پکڑے بھی گئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اس خطے کا دادگیر بننے کا ہمیشہ سے خوہشمند رہا ہے۔اپنی اس ہیکڑی سے یہ خلیج کی ریاستوں پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔اگر اس نے یٹمی معاملات میں دسترس حاصل کر لی تو اس کا پہلا نشانہ اسرائیل کے بجائے عرب ریاستیںاور سعودی عرب ہی ہوگا۔کیونکہ ایک مدت سے ان کی سنی علاقوں کو زیر کرنے کی کوشش رہی ہے۔
آج امریکہ بھی در پردہ ایرانیوں کی پیٹھ تھپتھپا رہا ہے۔جس کےلئے اس نے پہلے صدام حسین کو گریا پھر لیبا اور مصر کا تیہ پانچہ کیا۔ ہماری حکومت کی سرد مہری اور در پردہ بے وفائی نے متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش کو پاکستان کے غیر جانبدارانہ موقف اپنانے کے فیصلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پاکستان کو یمن کے موقف پر بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔پاکستان کو خلیج تعاون کونسل کی ریاستوں کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک معاملات پراوریمن تنازعے پر ضح موقف اپنانا ہوگا۔
Turkey and Iran
اسلام آباد کا طرز عمل ’کاہلی پر مبنی غیر جانبدارانہ موقف کے سوائے کچھ نہیں ہے۔ترکی اور ایران کا موقف بھی ایک جیسا ہی ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ انقرہ اور اسلام آباد کے لئے خلیجی ممالک کے بجائے تہران زیادہ اہم ہے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کی کوئی واضح سمت ہی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے آج لوگماضی کے وزیر خارجہ صاحب زادہ یعقوب علی خان کو یاد کر رہے ہیں۔
یمن کے حوثی باغی یمن میں فاطمی طرز کی خلابت کے قیام کا نعرہ لیکر بغاوت پر آمادہ ہوئے ہیں ۔جن کی پشت ایک جانب حزب اللہ ہے تو دوسری جانب ایران کھڑا ہےاس گیم میں ایران سنی عرب ریاستوں کو للچائی ہوئی نظروں سے گھور رہا ہے۔ جس قدر جلد ممکن ہوسکے وزیر اعظم پاکستان کو چاہے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے ہی صحیح لیکن اپنے دوستوں پر اپنی پوزیشن واضح کر کے سعودی عرب کی دامے درہمے سخنے ہر طرح سے مدد کرنا ہوگی۔
ورنہ کل ایران کی توسیع پسندی کا رخ ہماری جانب بھی مڑ سکتا ہے۔اب سنی حکومتِ پاکستان کو پیپلز پارٹی کی پرواہ کئے بغیر صحیح سمت میں قدم بڑھانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ مصلحت پسندی بہت ہوچکی اب عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو یمن بحران پر مبہم موقف سے رجوع کرنا ہوگا۔
Shabbir Khurshid
پروفیسر : ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com