تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان، امریکا تعلقات جس نہج پر اور باہمی تعلقات مد وجزر کا شکار ہیں اس سے کوئی لاعلم نہیں۔امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو گئے ہیں اور ذرائع کے مطابق مالیاتی امور کے ماہر علی جہانگیر صدیقی پاکستان کی جانب سے امریکا میں سفارت کاری کے اہم ترین عہدے پر اگلے مہینے منصب سنبھال لیں گے۔ علی جہانگیر صدیقی کو پاکستان مسلم لیگ نواز نے امریکا کے لئے عالمی شہرت یافتہ ماہر بینکار کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ نامزد سفیر کے حوالے سے سامنے آچکا ہے کہ امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ کے ساتھ ان کے کوئی ذاتی تعلقات نہیں ہیں کہ ان سے کوئی بڑی توقعات جوڑی جا سکیں۔تاہم بینکار و سرمایہ کارہونے کی وجہ سے ان کے تعلقات عالمی سرمایہ کاروں و اداروں سے ضرور ہوسکتے ہیں۔
انوسٹمنٹ بنک کے ماہر علی جہانگیر صدیقی سفارت کے عہدے پر تعینات ہونے والے کم عمر شخصیت کا اعزاز بھی حاصل کرلیں گے ۔ اپوزیشن کی جانب سے علی جہانگیرصدیقی کی تعیناتی کو اقربا پروری کی بدترین مثال قرار دیا جارہا ہے اور ماہرین خارجہ امور کی بڑی تعداد تنقید بھی کررہے ہیں۔تاہم ان تما م بحث کو ایک جانب رکھتے ہوئے ہمیں امریکا کے حوالے سے اہم امور کو سمجھنا ہوگا۔ امریکی صدر ٹرمپ ایک بڑے سرمایہ کار ہیں اور معاشی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ صدر ٹرمپ اپنی ہر پالیسی کو مالی فائرے و نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں اسی وجہ سے انہیں کئی امور پر تنقید کا سامنا بھی ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارت کے بجائے دفاعی امور اور امریکا کے مفادات کو پورا کرنے کا رشتہ قائم رہا ہے۔ دونوںممالک میں تجارتی و ددستانہ تعلقات مثالی نہیں ہیں ۔مہنگی ترین امریکی مصنوعات کو جہاں دنیا بھر میں چین کی ارزاں مصنوعات سے چیلنج درپیش ہے تو دوسری جانب امریکا واضح طور پر چین کو عالمی تجارتی منڈی پر قبضے کو روکنا چاہتا ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو امریکا عالمی تجارتی جنگ کا ایک حصہ سمجھتا ہے ۔ اس وقت اس منصوبے کی کامیابی کا تمام تر دارومدار پاکستان سے وابستہ ہے اور چین کے عظیم خواب کی تکمیل کیلئے مملکت نے امریکا کی ناراضگی مول لی ہوئی ہے۔ معاشی صورتحال کے بعد خطے میں امن کے حوالے سے امریکا افغانستان اور بھارت میں براہ راست مداخلت کرکے پاکستانی سرحدوں کے دونوں جانب سے دبائو بڑھا رہا ہے۔ 17برس کی لاحاصل افغان جنگ میںناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے عالمی فورمز پر بھی مشکلات پیدا کررہاہے۔ پاکستان کے دفاع کو کمزور اور بھارت کو بڑی فوجی طاقت بنانے کے لئے امریکا و اسرائیل کی نوازشوں نے وطن عزیز کے تحفظ کے لئے خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ امریکا اپنے مطالبات منوانے کے لئے فوجی امداد کی کمی و بندش کے ساتھ جنگی ساز و سامان کی فراہمی میں عدم تعاون کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پاکستان نے اپنے تجارتی خسار ے کو پورا کرنے کے لئے امریکی رسوخ کے حامل عالمی مالیاتی اداروں سے بھاری سود پر قرضے حاصل کئے ہوئے ہیں۔ جن کی بروقت ادائیگی میں مشکلات، پاکستان کے اپنے وسائل بتدریج سنگین مالیاتی مسائل کے طوفان کی آمد کا اعلان کرچکے ہیں۔ امریکی مخالف بلاک میںپاکستان کی شمولیت کا نیا رجحان بھی امریکا کی خفگی کا اہم سبب بن چکا ہے۔اس کے علاوہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی سیاست اور حکومت سازی میں بیجا مداخلت و اثر رسوخ کی وجہ سے بھی امریکا ، پاکستان تعلقات نازک موڑ پر ہیں۔
اس وقت پاکستان کو امریکا میںایک ایسے سفیر کی ضرورت ہے جو امریکا ، پاکستان تعلقات کی سرد مہری اور مختلف امور کو درست راہ پر گامزن کرنے کے لئے بھرپور کردار ادا کرسکے ۔ پاکستا ن مسلم لیگ نواز نے علی جہانگیر صدیقی کو امریکا میں سفارت کے اہم ترین عہدے پر نامزد کیا ہے تو کیا ہم بے فکر ہوجائیں کہ علی جہانگیر صدیقی پاکستان کو امریکی پالیسوں کے بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔لیکن اس سے پہلے دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا نامزد سفیر سے قبل تعینات تجربہ کار اور عالمی سیاسی امور کے ماہر سفارتکاروں نے ایسا کونسا کارنامہ سر انجام دیاتھا جس کی توقع ہم ایک مالیاتی شعبے سے وابستہ شخصیت سے کررہے ہیں۔ گھماپھیرا کر بات کرنے کے بجائے ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی جانب سے تقریباََ جتنے بھی سفارت کار تعینات ہوئے وہ بھی کامیاب سفارتکار نہیں کہلائے جاسکتے۔ پاکستان کی مضبوط و مربوط خارجہ پالیسی نہ ہونے کی سبب حالات اس نہج پر ہیں کہ پاکستان کو سہ جہتی مسائل و خطرات کا سامنا ہے۔ امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفارت کاروں نے ایسا کیا تیر مار لیا تھا کہ اب ہم کسی معجزے کی توقع کسی نئے سفارت کار سے کریں۔ بادی النظر منکشف ہے کہ پاکستان کو جب بھی مالی امدادملی تو اس میں امریکی منشا پاکستان کو اپنے پیروں میں کھڑا کرنے کی نہیں تھی بلکہ اپنے مفادات کے لئے غلام بنانے کی سوچ کارفرما رہی ہے۔ ریاستی معاملات میں مداخلت میں پاکستان کی خود مختاری سے زیادہ ڈومور کی روش امریکا کا وتیرہ بن چکا ہے۔ دفاع معالات میں پاکستان کو ہمیشہ دھوکے میں رکھنے کا عمل تلخ حقیقت ہے ۔ پاکستان کے دیرنیہ مسائل کو حل کرانے میں مدد دینے کے بجائے مشکلات میں اضافے کا سبب ہی بنا ہے۔ مرزا عبدالحسن اصفہانی سے لیکر اعزا زاحمد چوہدری تک پاکستان و امریکا میں تعلقات کی نوعیت ساس ، بہو کے جھگڑوں کی طرح رہی ہے۔
امریکا اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لئے زیادہ تر سیاسی حکومتوں کے بجائے آمر حکمرانوں سے فوائد حاصل کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ خاص کر موجودہ حالات میں امریکا و پاکستان کے خراب ترین تعلقات کی بنیاد جن خطوط پر رکھی گئی وہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کی بدترین مثال ہے جس کا خمیازہ چالیس برسوں سے پاکستانی عوام بھگت رہی ہے۔امریکا نے سفارت کاری سے زیادہ توجہ ڈکٹیشن دینے پر رکھی اور پاکستان نے خود انحصاری و برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے بجائے قرضوں کے حصول پر توجہ مرکوز رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سفارت کار کا امریکا میں تعینات ہونا خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ کیونکہ امریکا اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے پاکستانی حکمرانوں سے براہ راست رابطوں اور مطالبات منوانے کے لئے دبائو دینے کے مرض میں مبتلا ہے۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تجربہ کار سفارت کار ہوں یا پھر نا آموز ۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تمام ریاستی اداروں کو مربوط خارجہ پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی رہی ہے کہ خارجہ پالیسی تو ایک طرف پاکستان میں بڑے وقفے تک وزیر خارجہ ہی دستیاب نہیں تھے ۔ مشیروں ہی سے کام چلایا جاتا رہا ہے۔ سفارتی امور کے ماہر کہلانے والے کئی سفارت کاروں کے کارناموں نے پاکستان کو دنیا بھر میں شرمندگی سے بھی دوچار کیا ہوا ہے۔حسین حقانی اس کی بدترین مثال ہیں جنہوں نے پاکستان کو امریکی کالونی بنا کر سی آئی اے ایجنٹوں اور بلیک واٹر کے اہلکاروں کے لئے تمام حساس مقامات کو واکنگ ٹریک بنا دیا تھا اور اب بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے گریز نہیں کرتے۔
علی جہانگیر صدیقی ہوں یا کوئی بھی عالمی سیاسی امور کا ماہر یا ٹرمپ سے ذاتی تعلقات رکھنے والی کراماتی شخصیت ۔ اس وقت پاکستان کے ارباب اختیار کو خارجہ پالیسی میں استحکام و اس پر کاربند رہنے کی پالیسی کو ہی اپنانا ہوگا ۔ کیونکہ معلق خارجہ پالیسی کے سبب کوئی بھی سفارت کار پاکستان کو امریکا کے ساتھ برابری کے اچھے تعلقات کے روٹ پر نہیں لا سکتا۔ تاہم اس بات کی توقع ضرور رکھی جاسکتی ہے کہ اگر پاکستان کے تمام ریاستی ادارے ایک صفحے پر یکجا ہوکر طویل المدتی اور مختصر مدتی پالیسیوں پر اپنی اپنی حدود اور دائرہ اختیار پر کاربند ہوجائیں تو پھر چہرہ کوئی بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ ریاست کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھایا جائے گا ۔ کسی شخص کی انفرادی حیثیت سے یہ توقعات وابستہ کرلینا کہ سرد و کشیدہ تعلقات فوراََ بہتر ہوجائیں گے تو یہ بدترین خوش فہمی ہوگی ۔ ریاستی اداروں میں یگانت اور دوری کے سبب باہمی رابطوں کا سقم پایا جاتا ہے جس کا فائدہ ہمیشہ امریکا اٹھاتا ہے۔ خارجہ پالیسیوں کو مربوط کرکے ہی ہم کسی بھی پریشان کن صورتحال سے باہر نکل سکتے ہیں۔ پاکستان کے نئے نامزد سفیر کو وزیر اعظم کی جانب سے تعیناتی سے اپوزیشن کو تنقید کرنے کا بہترین موقع تو مہیا ہوگیا ہے لیکن انہیں عوام کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ ایسی کون سا سفیر تھاجس نے آزادانہ پالیسی بنائی ہواور یہ بھی بتانا ہوگا کہ کیا سفارت کار خود مختار ہوتا ہے۔؟؟چاہے کوئی بھی سفیر کسی بھی ملک میں تعینات ہو ۔ وہ اپنی مرضی کے بجائے ریاست کی جانب سے دی جانے والی پالیسیوں اور بیانیہ پر کار بند ہوتا ہے ۔خارجہ پالیسی مضبوط ، ریاستی ادارے مربوط تو سفارت کار کوئی بھی ہو ، کوئی فرق نہیں پڑتا۔