کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) ایک کشمیری عسکریت پسند رہنما نے پاکستان سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے مشروط طور پر کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عوام کے تحفظ کے لیے اپنے دستے وہاں بھیجنا چاہییں۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مظفر آباد سے ملنے والی رپورٹوں میں نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ اس کشمیری عسکریت پسند رہنما نے کہا کہ نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے پانچ اگست کو کیے گئے فیصلے کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد اقوام متحدہ کو اب وہاں اپنے امن دستے بھیجنا چاہییں۔ تاہم اگر عالمی ادارہ ایسا نہیں کرتا، تو اسلام آباد کو اپنے فوجی دستے اس لیے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھیج دینا چاہییں کہ وہ وہاں مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کر سکیں۔
اس کشمیری عسکریت پسند رہنما کا نام سید صلاح الدین ہے، جو بھارت کے زیر انتظام کشمیر پر نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف سرگرم ایک درجن سے زائد مسلح گروپوں کے اتحاد کے سربراہ بھی ہیں۔ سید صلاح الدین نے کہا، ”یہ پاکستان کی مسلح افواج کا فرض بنتا ہے، جو کہ دنیا کی پہلی اسلامی ریاست ہے جو ایک ایٹمی طاقت بھی ہے، کہ وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو کر وہاں کے عوام کی عسکری سطح پر مدد کریں۔‘‘
اس بارے میں روئٹرز نے اپنے ایک مراسلے میں لکھا ہے کہ سید صلاح الدین کا یہ مطالبہ پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت پر اس داخلی دباؤ کی عکاسی بھی کرتا ہے، جس کے تحت یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد کو نئی دہلی حکومت کے پانچ اگست کے اقدام کے بعد اپنے طور پر کشمیر سے متعلق فیصلہ کن قدم اٹھانا چاہییں۔
اس دباؤ کے برعکس عمران خان حکومت مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اب تک عالمی سطح پر صرف ایک وسیع تر سفارتی مہم پر ہی اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
اس پس منظر میں سید صلاح الدین نے پاکستان کے زیر انتظام جمو کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سینکڑوں افراد کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتوار یکم ستمبر کے روز کہا، ”آج کے بہت مشکل حالات میں، (کشمیر سے متعلق) صرف سفارتی کوششیں اور سیاسی تائید و حمایت ہی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی۔‘‘
بھارت میں مودی حکومت نے پانچ اگست کے اپنے بہت متنازعہ ہو جانے والے فیصلے کے تحت جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس منقسم ریاست کے بھارت کے زیر انتظام حصے کو آئندہ مزید دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے ایک لداخ ہو گا اور دوسرا جموں اور کشمیر۔ مزید یہ کہ آئندہ ان دونوں نئے علاقوں کی حیثیت بھارت کے یونین علاقوں کی ہو گی۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
جب سے نئی دہلی نے جموں کشمیر سے متعلق اپنا یہ متنازعہ فیصلہ کیا ہے، تب سے کشمیر میں مسلسل ایک سکیورٹی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے اور اس خطے کا باقی ماندہ دنیا سے مواصلاتی رابطہ بھی زیادہ تر کٹا ہوا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی حکومت کشمیر میں نہ رہنے والے بھارتی شہریوں کو یہ حق دینے کا اعلان بھی کر چکی ہے کہ آئندہ وہ کشمیر میں املاک بھی خرید سکیں گے۔ اب تک ایسا کرنا قانونی طور پر ممنوع تھا۔
مودی حکومت نے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر سے متعلق اپنا گزشتہ ماہ کے فیصلے پر ابھی تک عمل درآمد شروع نہیں کیا۔ حکومتی منصوبے کے مطابق یہ عمل درآمد 31 اکتوبر سے شروع ہو گا اور تب نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کی بھارتی آئین کے تحت خصوصی حیثیت عملی طور پر ختم ہو جائے گی۔