چمن (اصل میڈیا ڈیسک) اپنے وطن میں مصائب سے دو چار ہزاروں افغان شہری پاکستان سے ملحق جنوبی سرحد پر جمع ہیں۔ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں، لیکن طالبان انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دے ر ہے ہیں۔
پاکستان سے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پرواقع افغان تجارتی قصبے سپن بولدک میں ایک کچی سڑک پر بیٹھے ذاکراللہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے سرحد پار کرنے کی چھ سے زائد مرتبہ کوشش کی لیکن انہیں واپس کردیا گیا اور کئی مرتبہ تو پرتشدد طریقہ بھی اپنا یا گیا۔
تین بچوں کے والد 25 سالہ ذاکر اللہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہم وہاں کام کرنے کے لیے جانا چاہتے ہیں کیوں کہ یہاں کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن وہ (طالبان) کہتے ہیں کہ صرف اس علاقے کے وہی لوگ جا سکتے ہیں جن کے پاس دستاویزات ہیں۔”
افغانستان پر کنٹرول کرلینے والے نئے حکمراں طالبان کا اصرار ہے کہ افغان شہریوں کو ملک میں ہی رہنا چاہیے اور وہ جنگ سے تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لیں۔
سرحد عبور کرکے پاکستان جانے کی کوشش کرنے والے 25 سالہ رحمت دین وردک کا کہنا تھا،”وہ (طالبان) لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ تمہارا ملک ہے۔ تمہیں اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہئے۔
تاہم سرحد کے دوسری طرف چمن علاقے میں پاکستان کے سکیورٹی اہلکار بھی سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے افغانوں کو روک رہے ہیں۔
ایک طالبان سرحدی گارڈ ملاّ مولوی حق یار نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت میں بتایا،”ہر رو ز آٹھ سے نو ہزار لوگ ضروری دستاویزات کے بغیر سرحد پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں واپس کر دیا جاتا ہے۔”
قندھار صوبے میں طالبان ایک عہدہ دار مولوی نور محمد سعید نے بھی تصدیق کی کہ حکام لوگوں اور خاندانوں کو ملک نہ چھوڑنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ایسا کرنے سے آپ اپنی طالبان کلچر کا احترام کھودیتے ہیں۔”
صرف یومیہ مزدوروں اور تاجروں کوسرحد پر خار داروں سے لپٹی ہوئی ایک تنگ راہداری سے ہوکر گزر کراگلی چوکی کی طرف جانے کی اجازت ہے۔ ایک دوسری راہداری بھی ہے، جو مسافروں کے لیے ہے۔ لیکن وہ خالی ہے۔ صرف بوڑھے اور بیمار مرد و خواتین کو پاکستان میں علاج کے لیے آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
سینکڑوں افغان شہری اپنا ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگست کے وسط میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول اور غیرملکی امداد بند ہو جانے کے بعد بہت سے افغان شہری معاشی بدحالی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں اور کسان خشک سالی کے اثرات سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان کی ایک تہائی آبادی کو قحط کا خطرہ لاحق ہے۔
ذاکراللہ کو اب صرف پاکستان میں کام ملنے کی امید ہے تاکہ وہ کچھ پیسے اپنی بیوی اور بچوں کے لیے بھیج سکیں۔
سرحدی کراسنگ پر موجود بہت سے دیگر لوگوں کی طرح سپن بولدک کے سفر کے دوران ان کی معمولی بچت بھی ختم ہوگئی ہے۔
محمد عارف نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ننگرہار میں اپنا گھر چھوڑ کر آئے ہیں کیونکہ ان کے پاس ”اپنے آٹھ بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے پیسے نہیں۔”
کورونا وبا اور افغانستان میں حالیہ پیش رفت سے قبل افغان پاکستان سرحد معمولی پابندیوں کے ساتھ زیادہ تر کھلی رہتی تھی، جس کے ذریعے روزانہ دسیوں ہزار لوگ آتے جاتے تھے۔ لیکن جب طالبان نے سپین بولدک پر قبضہ کیا تو پاکستان نے دروازے بند کر دیے اور پھنسے ہوئے مسافروں کا بہت بڑا ہجوم دونوں طرف جمع ہو گیا۔ یہ سرحد اس وقت دوبارہ کھل گئی جب طالبان نے امریکی حمایت یافتہ حکومت کو کابل سے بے دخل کرتے ہوئے اگست کے وسط میں اقتدار سنبھال لیا۔ اس کے بعد افغان شہریوں کی بڑی تعداد طالبان کے کسی ممکنہ خوف کی وجہ سے پاکستان جانے کے لیے سرحد پر پہنچ گئے۔
اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یو این ایچ سی آر نے پچھلے مہینے کہا تھا کہ وہ رواں سال کے آخر تک افغانستان کے پڑوسی ممالک میں پانچ لاکھ ممکنہ مہاجرین کے لیے ہنگامی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے سینیئر ایمرجنسی آفیسر برٹرینڈ بلینک نے اسلام آباد میں اے ایف پی کو بتایا، ”اگر ملک کے اندر کوئی تبدیلی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا باعث بن سکتی ہے تو ہمیں تیاری کرنے کی ضرورت ہے اورفی الحال ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔”